Tuesday 29 September 2015

قالین والا پٹھان

قالین والا پٹھان
میرا نام صدف ہے اور میری عمر تیس سال ہے ، میں ایک شادی شدہ عورت ہوں۔ کالج کے زمانے سے مجھے سیکس کا شوق ہوااسکی بنیادی وجہ سیکسی اسٹوریز اور موویز تھا مگر شادی سے پہلے ایک دفعہ بھی مجھے سیکس کرنے کا موقع نہ مل سکا۔پھر میری شادی ہوگئی اسوقت میری عمر چوبیس سال تھی آج بھی میرا فگر غضب کا ہے ، اور اس وقت تو اچھے اچھے مردوں کی نظریں میرے تعاقب میں ہوتی تھیں۔ اب میں ایک بچے کی ماں ہونے کے باوجود بھی کافی سیکسی ہوں۔میرے شوہر ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں ٹیکسٹائل انجینیر ہیں۔میری سیکس لائف بہت اچھی گذر رہی تھی۔شادی کے بعد میرے شوہر کا تبادلہ فیکٹری سے دور کراچی میں ہوگیا، مجھے بھی انکے ساتھ شفٹ ہونا پڑا مگر میرے شوہر کو ابھی یہاں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگنا تھا وہ ابھی ایک ہفتہ میں ایک بار گھر آتے تھے۔ایک دن میں وہ ایک بار سے زیادہ میرے ساتھ سیکس نہیں کرتے تھے۔جس سے میری سیکس کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی۔ سارا دن انکا تو آرام کرتے ہی گذر جاتا تھا اور نئے نئے کھانوں کی فرمائش میں۔ اور میں تڑپتی رہتی تھی کچھ عرصہ تو میں ایمانداری کے ساتھ زندگی گزارتی رہی مگر پھر مجھ کو ضد ہو گئی اور میں نے وہ سب کچھ کر لیا جسکا کوئی شریف عورت سوچ نہیں صکتی تھی۔اس وقت میں ایک بچے کی ماں بن چکی تھی مجھے معلوم تھا سیکس کیا ہوتا ہے ، میرا بچہ آپریشن سے ہوا تھا اسی وجہ سے میری چوت ابھی تک بہت ٹائٹ تھی۔
یہ گرمیوں کے دن تھے میرے شوہر دو دن پہلے ہی اپنی جاب پر گئے تھے، اور اس بار وہ مجھ سے سیکس نہ کرسکے تھے کیونکہ مجھے ماہواری آرہی تھی، انکے جانے کے بعد میں فارغ ہوئی تھی اور اب بری طرح دل مچل رہا تھا سیکس کرنے کو مگر کچھ نہیں سوجھتا تھا کہ کیا کروں،میں گھر میں اکیلی تھی میرا بچہ پیٹ بھر کر میرا دودھ پی کر سو چکا تھا اور میں بھی لیٹی ٹی وی دیکھ رہی تھی میں نے اسوقت قمیض شلوار پہنی ہوئی تھی اسکے نیچے کچھ نہیں کیونکہ میرے گھر کس کو آنا تھا یہاں ہمارا کوئی جاننے والا نہں تھا اور نہ محلے میں کسی سے اتنی سلام دعا ۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی میں اس سوچ میں ڈوبی کہ اس گرمی میں کون آگیا؟ دروازے تک گئی کہ دیکھوں کون ہے میں نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا کون ہے؟تو باہر سے آواز سنائی دی: بی بی جی قالین خریدنا ہے؟
ایکدم میرے دماغ کی بتی جل اٹھی میں نے سوچا اس گرمی میں کون ہوگا جو گھر سے باہر ہوگا اسی مرد کے ساتھ اپنے سیکس کی خواہش پوری کرلوں۔میں نے دروازہ کھولا تو ایک پسینے میں شرابور مظبوط جسم والا پٹھان مرد کچھ قالین اٹھائے میرے دروازے کے باہر کھڑا تھا اسکی عمر میرے مطابق چالیس سال تو ہوگی، میں نے پوچھا کیا قیمت ہے قالین کی؟
اس نے کہا بی بی جی آپ پہلے پسند کر لو پھر قیمت بھی طے کر لیتے ہیں۔میں نے کہا اچھا اندر آجاؤ اس نے ایک لمحے کو سوچا پھر قالین اٹھا کر اندر آگیا، میں نے اسکے اندر آنے کے بعد ذرا سا سر باہر کر کے دیکھا تو پوری گلی میں سناٹا تھا۔میں نے دروازہ بند کیا تو دیکھا پٹھان میرے پیچھے کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا میں نے صحن میں رکھی ایک ٹیبل کے سامنے پڑی کرسی کی جانب اشارہ کیا یہاں بیٹھ جاؤ اور سارے قالین زمین پر رکھ دو میں خود پسند کر لونگی کونسا لینا ہے۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر مجھ سے کہا بی بی جی تھوڑا پانی مل سکتا ہے پینے کو میں کچن میں گئی وہاں سے ایک بوتل اور گلاس لا کر ٹیبل پر رکھی مگر اس دوران اسکو متوجہ کرنے کے لیے میں نے دوپٹہ گلے میں ڈال لیا اور بالکل جھک کر بوتل اور گلاس ٹیبل پر رکھا جس سے لازمی اسکی نظر میرے بڑے بڑے دودھ سے بھرے مموں پرپڑی ہوگی۔ میں نے بوتل رکھنے کے بعد سیدھی ہو کر ایک نظر اسکو دیکھا وہ بغور مجھے ہی دیکھ رہا تھا ۔ میں اب دوبارہ جھک جھک کر قالین دیکھنے لگی اسی دوران ایک سائڈ سے میں نے اپنا دوپٹہ نیچے گرا دیا تاکہ وہ اچھی طرح کپڑوں کے اندر چھپے میرے حسن کا نظارہ کر لے ۔ ویسے مفت کا مال کیسا بھی ہو کوئی مرد نہیں چھوڑتا۔ پھر میں تو ایک اچھی خاصی سیکسی عورت تھی۔
میں نے محسوس کیا کہ وہ پانی پینے کے دوران مسلسل میرے جسم کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں خوش ہو رہی تھی کہ کام بنتا نظر آرہا ہے۔ میں اس سے ادھر ادھر کی باتیں بھی کرتی رہی کہ تم کہاں رہتے ہو کہاں سے لائے ہو یہ قالین وغیرہ وغیرہ، پھر میں باتوں باتوں میں اسکے قریب گئی اور اسکے چہرے پر ہمت کر کے ہاتھ پھیرا اور کہا اتنی گرمی میں اتنی محنت کیوں کرتے ہو۔ دیکھو کتنا پسینہ بہہ رہا ہے ، اس نے ایکدم میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا بی بی جی کیا چاہتی ہوتم؟
میں نے بھی ڈھٹائ سے جواب دیا وہ ہی جو ایک عورت ایک مرد سے اور ایک مرد ایک عورت سے چاہتا ہے۔ یہ سنتے ہی اسکی آنکھوں میں چمک آگئی، وہ ایکدم اٹھا اور مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا، میں نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا ایسے نہیں پہلے تم غسل کر لو مجھے تم سے بو آرہی ہے وہ اپنے سفید سفید دانت نکالتا ہوا کہنے لگا کدھر ہے نہانے کی جگہ میں نے اسکو ہاتھ کے اشارے سے بتایا اور کہا نہانے کے بعد اس کمرے میں آجانا ، وہ کچھ کہے بغیر باتھ روم میں گھس گیا، میں بھی جلدی سے کمرے میں چلی گئی اور جاکر روم اسپرے کردیا اور لائٹ جلا دی، ذرا دیر بعد ہی روم کا دروازہ کھلا اور وہ پٹھان کمرے میں داخل ہوگیاوہ نہانے کا تولیہ لپیٹ کر ہی کمرے میں آگیا تھا اور اسکے کپڑے اسکے دوسرے ہاتھ میں تھے میں اسکی عقلمندی دیکھ کر خوش ہوئی، آتے ہی وہ بیڈ پر اچھل کر بیٹھ گیا، اب میں نے اسکو غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ اچھا خاصہ خوبصورت مرد تھا ہلکی ہلکی داڑھی تھی اسکی اورتھوڑی بڑی مونچھیں۔ سرخ سفید رنگت اور مظبوط چوڑا سینہ جس پر با ل ہی بال بھرے تھے۔ میں تو دیکھ کر خوشی سے پاگل ہونے لگی، وہ بیڈ پر سے کھسکتا ہوا میرے نزدیک آیا اور ایک ہاتھ بڑھا کر میری کمر میں ڈالا اور مجھے کھینچ کر اپنے ساتھ چپکا لیا، کہنے لگا بی بی تم بہت خوبصورت ہے تم کو ایسا مزہ دے گا کہ تم یاد کرے گا۔میں بھی تو مزہ ہی چاہتی تھی اپنے مطلب کی بات سن کر اسکے منہ سے بہت خوشی ہوئی ، میں نے بے شرموں کی طرح اسکے لنڈ پر ہاتھ لگایا تو محسوس کیا وہ ڈھیلا پڑا ہے۔ اس نے میری ہمت دیکھ کر تولیہ ہٹا دیا اب جو میں نے دیکھا تو ایک لمحہ کو سہم گئی کیونکہ اسکا لنڈ سخت نہ ہونے کے باوجود اتنا بڑا اور موٹا لگ رہا تھا کہ میرے شوہر کا سخت ہونے کے بعد بھی ایسا نہ تھا میں نے اس سے پوچھا اسکو سخت کرو، تو وہ بولا میری بلبل یہ کام تم کو کرنا ہے باقی کام میں خود کرلونگا۔ میں نے اسکے لنڈ کو ہاتھ لگایا تو اس میں تھوڑی سختی محسوس کی مگر اس طرح نہیں کہ وہ میری تو کیا کسی کی چوت میں بھی جا سکتا۔ میں نے خود کو اسکی گرفت سے آزاد کیا اور نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے لنڈ کو ہاتھ میں لے کر مسلنا شروع کیا ، ذرا دیر میں وہ سخت ہونے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ تو ایک لمبے اور موٹے ڈنڈے کی شکل اختیار کر گیا ، اب میرے دل میں ڈر جاگ اٹھا کہ یہ لنڈ تو میری نازک سے چوت کو بری طرح سے پھاڑ ڈالے گا، مگر پھر سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا میں یہ لنڈ ضرور اپنی چوت میں لونگی۔ اب اس نے کہا تم بھی اپنے کپڑے اتارو میں نے مزید انتظار نہیں کیا اور فٹا فٹ اپنے کپڑے اتارکر اسکی طرح پوری ننگی ہوگئی، وہ میرے ممے دیکھ کر پاگل سا ہوگیا اور مجھے دبوچ کر بے تحاشہ میرے ممے چوسنے لگا اس کے اس پاگل پن سے مجھے تکلیف ہورہی تھی، مگر میں نے سیکس کی خواہش پورا کرنے کے لیے اسکو برداشت کیا، وہ حقیقتاً جنگلی لگ رہا تھا ، اس کے اسطر ح پاگلوں کی طرح چوسنے سے میں نشے میں مدہوش ہونے لگی تھی اور میری چوت پانی سے گیلی ہورہی تھی، میں اب اسکا لنڈ اپنی چوت سے نگلنے کے لیے بے تاب تھی مگر وہ تھا کہ دودھ پینے سے باز نہیں آرہا تھا۔میں نے بڑی کوشش کے بعد خو د کو اس سے آزاد کیا اور فوراً بیڈ پر لیٹ کر ٹانگیں تھوڑی سی کھول کر اسکو اپنی گیلی اور گرم چوت کا نظارہ کروایا۔اب وہ بھی پاگل ہوکر چھلانگ لگا کر میرے نزدیک آیا اور میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے انہیں مزید کھولا۔اب میری تڑپتی چوت اسکی نظروں کے سامنے تھی اس نے اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اپنا لمبا ڈنڈے جیسا لنڈ میری چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور تھوڑا سا زور لگایا، جس سے اسکے لنڈ کا ہیڈ میری چوت میں ضرور داخل ہوا مگر مجھے ایسا لگا جیسے پہلی بار کسی لنڈ کو چوت میں لیا ہو، اتنی تکلیف کہ برداشت سے باہر تھا میں نے اس کو ظاہر تو نہیں ہونے دیا مگر اتنا ضڑور کہا میں نے اتنا موٹا لنڈ پہلے کبھی نہیں لیا ذرا دھیان سے اور آرام سے کرنا، اس نے کہا فکر نہ کر میری جان تجھے ایسا مزہ دونگا کہ یاد کرے گی۔ اسکی اس بات کا اندازہ تو تھا مجھے کہ یہ مزہ ضرور دے گا مگر کتنا درد دے گا اسکا اندازہ نہیں تھا اس نے کہا تو کہ فکر نہ کر مگر اگلے ہی لمحے مجھے فکر لاحق ہوگئی جب اس نے تھوڑا سا لنڈ باہر کر کے دوبارہ سے اندر کیا تو وہ دوبارہ اسی جگہ آکر اٹک گیا ، اس نے کہا واہ تیری چوت تو کنواری لڑکیوں جیسی لگتی ہے، اب برداشت تو کرنا پڑے گا میں بھی تڑپ رہا ہوں ایک مدت سے کوئی ملا نہیں چودنے کو مگر آج تیری اور اپنی خواہش پوری کرونگا اب روک مت مجھے تو نے خود دعوت دی ہے۔میرے پاس اسکی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا اور میں خود بھی یہ مرد کھونا نہیں چاہتی تھی۔
اب اس نے کہا تیار ہو جاؤ میرا لنڈ کھانے کے لیے اور یہ کہہ کر پورا لنڈ باہر نکال لیا، میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا کہ اچانک مجھے اسکا سخت لنڈ اپنی چوت پر محسوس ہوا اسکے بعد بس ایسا لگا جیسے میری چوت پھٹ گئی ہے اور تکلیف کی انتہا تھی اسکا لنڈ آدھا میری چوت میں داخل ہوچکا تھا وہ بھی چہرے سے پریشان لگ رہا تھا ، پھر اس نے میری جانب دیکھا اور پیاربھرے انداز میں بولامیری بلبل تھوڑا برداشت کر لے پھر مزے ہی مزے کرنا۔ میں سمجھ رہی تھی اس کی بات کو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا مگر یہ تکلیف کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ خیر تھوڑی دیر میں تکلیف کم ہونا شروع ہوئی اتنی دیر وہ میرے جسم کو بری طرح جگہ جگہ سے کاٹتا رہا اور مجھے مست کرتا رہا ، اب میں نے اسکا منہ اپنے مموں سے ہٹایا جہاں وہ کاٹ رہا تھا وہ میرا مطلب سمجھ گیا اور لنڈ کو تھوڑا باہر کر کے پھر سے اندر کیا اور میرے چہرے کے تاثرات کو دیکھنے لگا اسکو میرے چہرے پر سکون نظر آیا تو وہ ایک بار پھر جنگلی کا روپ دھار گیا اور اس بار ایک ہی جھٹکے میں پورا لنڈ میری چوت میں داخل کردیا مجھے شدید تکلیف اپنی چوت اور پیٹ میں محسوس ہوئی اسکا لنڈ میری بچہ دانی کو ٹھوک رہا تھا۔ جس سے مجھے تکلیف ہورہی تھی۔ مگر اب کی بار وہ نہیں رکا اور لنڈ کو اندر باہر کرنے لگا اسکا لنڈ رگڑتا ہوا اندر باہر ہورہا تھا ایسا لگتا تھا جیسے ابھی تک میری چوت اسکے قابل نہیں ہوئی۔ مگر ذرا دیر کی کوشش کے بعد میری چوت پورا پورا ساتھ دینے لگی۔میری فارغ ہوچکی تھی جس سے میری چوت پوری گیلی ہوگئی تھی اور وہ اب شڑاپ شڑاپ میری چوت کو چود رہا تھا، اب میں بے مزے کی بلندیوں کا سفر کرنے لگی مگر وہ تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور مسلسل مجھے چودے جارہا تھا۔میں سانسیں بے ترتیب تھیں اور بری طرح اچھل رہی تھی میں ہر ہر جھٹکے پر۔ وہ تو لگتا تھا جیسے صدیوں سے بھوکا ہے اس بری طرح مجھے چود رہا تھا کہ بس مگر اسکی اس چدائی میں جو مزہ تھا وہ کبھی میرے شوہر نے نہیں دیا تھا۔ پھر اس نے مجھے کمر کے نیچے دونوں ہاتھ ڈال کر اٹھایا اور گود میں بٹھا لیا اب اسکا پورا لنڈ میری چوت میں اور میں اسکی گود میں بیٹھی تھی یوں سمجھ لیں کہ اسکے لنڈ کی سواری کر رہی تھی۔ میرے بڑے بڑے ممے اسکے چوڑے سینے سے دب کر پچکے ہوئے تھے اور میرے مموں سے دودھ نکل کر اسکے سینے پر لگ گیا تھاوہ اچھال اچھال کر مجھے اس بری طرح چود رہا تھا کہ میرا برا حال تھا مگر میں اس سب کو روک نہیں سکتی تھی مجھے تو اب چدنا ہی تھا چاہے وہ کیسے بھی چودے۔ تھوری دیر اسی طرح چودنے کے بعد اور مجھے بے حال کرنے کے بعد اس نےلنڈ باہر نکالا اور مجھے دوبارہ سے بیڈ پر لٹایا مگر کروٹ سے اور بیڈ کے کنارے پر پھر میری ایک ٹانگ اپنے کندھے پر رکھی اور اپنی ایک ٹانگ نیچے زمین پر پھر اسکے بعد اس نے دوبارہ سے اپنا ڈنڈا میری چوت میں ایسے ڈالا جیسے وہ اسی کے لیے بنی ہو اور وہ ہی اسکا مالک ہو۔ بس اب کی بار ایک اور نیا مزہ تھا میں اس دوران پتہ نہیں کتنی بار فارغ ہوچکی تھی مجھ میں مزاحمت کی ہمت بھی نہیں تھی اسکا لنڈ اند ر کیا گیا میں پھر سے نشے کی کیفیت سے دوچار ہونے لگی۔ اب اسکا ایک ہاتھ میں گانڈ پر تھا اور ایک ہاتھ میرے ایک ممے کو دبوچے ہوئے بری طرح مسل رہا تھا ذرا دیر بعد میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی ایک انگلی اپنے منہ میں لی اور اچھی طرح اس پر اپنا تھوک لگایا پھر اس کو میری گانڈ میں داخل کردیا میں ایکدم سے اچھل پڑی کیونکہ آج تک میں نے خود کبھی اپنی گانڈ میں انگلی نہیں کی تھی ایک مرد کی انگلی سے تو کرنٹ لگنا ہی تھا۔اور میرے شوہر نے تو صرف میرے کولہوں کو چوما تھا کبھی میری گانڈ نہیں ماری تھی۔ مجھے اسکے ارادے کا اندازہ ہوا تو خوف سے میری حالت خراب ہونے لگی۔مگر اگلے ہی سیکنڈ اسکا لنڈ کے جھٹکوں سے میں سب بھول کر صرف اسکے لنڈ کو اپنی چوت میں محسوس کر کے مدہوش ہوتی رہی۔ اب اس نے سب چھوڑ کر پورالنڈ اندر ڈال کر میرے اوپر لیٹ گیا اور مجھے کمر کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر کس کے دبوچ لیا اب فارغ ہونے کی باری اسکی تھی۔ پھر اس کے لنڈ نے کھولتا ہوا لاوا اگلنا شروع کیا اور مجھے ایسا لگا جیسے میرے جسم کی حرارت بڑھ رہی ہے اور میں ذرا دیر میں پگھل کر پانی بن جاؤں گی۔اسکا لنڈ تقریبا دومنٹ تک لاوا اگلتا رہا۔ اس نے اپنی منی کا آخری قطرہ تک میری چوت کی نذر کردیا۔ اور پھر اسی طرح لیٹا رہا اور لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔میں تقریباً بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا۔ پھر وہ میرے اوپر سے ہٹ گیا اور کہنے لگا ایسا مزہ مجھے میری بیوی نے پہلی رات دیا تھا اسکا بھی ایسا ہی حال کیا تھا میں نے۔ اب مجھ میں تھوڑی طاقت پیدا ہوئی تو دیکھا اسکا لنڈ میری چوت کے خون سے تر تھا شاید میری چوت پھٹ چکی تھی۔اس بری طرح میں کبھی نہیں چدی تھی۔
پھر وہ اٹھ کر میرے روم کے باتھ روم میں گیا اور اپنا لنڈ دھو کر واپس آیا اور مجھ سے کہا اٹھو اور میرا لنڈ منہ میں لو اب تمہاری گانڈ کی باری ہے ، میں یہ سنتے ہی چیخنے لگی نہیں ایسا مت کرو دوبارہ میری چوت مار لو مگر مجھے گانڈ سے مت چودو مگر اس نے میرا انکار سن کر ایک زوردار تھپڑ میرے چہرے پر رسید کیااور کہا پٹھان سے چدوانے کا شوق ہے تو سب برداشت کرو اب۔اسکا تھپڑ اتنا زور دار تھا کہ آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے پھر میں نے دل میں سوچا اگر اس جنگلی کو مزید انکار کیا تو یہ مار مار کر بھرتا نکال دے گا اور کرے گا اپنی مرضی ، خود اس مصیبت کو دعوت دی ہے اب بھگتنا تو پڑے گا۔ یہ سوچ کر میں نے پھر سے اسکا لنڈ منہ میں لیا نہ جانے کس مٹی کا وہ بنا تھا اور کیا وہ کھاتا تھا اسکا لنڈ اس تیزی سے دوبارہ سخت ہوا جیسے ابھی کچھ کیا ہی نہیں تھا اس نے۔مگر میں اسکے سائز سے خوفزدہ تھی یہ میری گانڈ میں جاکر تو برا حال کرے گا میرا۔ پھر اس نے کہا فکر مت کر میری بلبل بہت خیال سے تیری گانڈ ماروں گا۔ میں سمجھ چکی تھی کتنا خیال کر سکتا ہے وہ جنگلی۔مگر اب میں کچھ کر نہیں سکتی تھی آخر کار اس نے مجھے چدائی کا وہ مزہ دیا تھا جس کے لیے ساری زندگی ترسی تھی میں۔اب اسکو گانڈ دینے میں کوئی حرج تو نہیں تھا مگر فکر تکلیف کی ہی تھی۔اس نے مجھے ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا میری ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھی وہ مجھے سہاارا دے کر چلاتا ہوا ڈریسنگ ٹیبل تک لایا اور کہا آگے جھکو اور دونوں ہاتھ ڈریسنگ ٹیبل پر رکھومیں نے ایسا ہی کیا اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے ایک کریم اٹھائی اور ہاتھ پر لگا کر اچھی طرح میری گانڈ پر مل دی اسکے اس طرح ملنے سے مجھے مزہ آرہا تھا۔اب وہ ہی کریم اس نے اپنے لنڈ پر بھی ملی اور پھر مجھے کہا تھوڑا اپنی گانڈ کو اونچا کرو میں نے ایسا ہی کیا اب اسکا لنڈ میری گانڈ پر دستک دے رہا تھا اس نے تھوڑا سا زور لگایا اور میری تکلیف کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا اسکا لنڈ ابھی تھوڑا سا ہی اندر گیا تھا کہ میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو نکل کر ٹیبل کو گیلا کرنے لگےمگر وہ جیسے ان سب باتوں سے لاپرواہ تھا نہ اسے میرے رونے کی آواز اور نہ میرے آنسو رکنے پر مجبور کر رہے تھے۔اس نے مزید وقت ضائع کیا نہ میری جانب دیکھا بس شروع ہو گیا میری گانڈ کا سوراخ چوڑا کرنے میں۔ اس کے زور دار دھکوں سے میرا سر بار بار ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرا رہا تھا۔ اب اسکا پورا لنڈ میری گانڈ میں راج کر رہا تھا اور میں تکلیف کی شدت کو روکتے روکتے اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی۔ پھر اس نے دیکھا کہ اس طرح مزہ نہیں آرہا تو مجھے حکم دیا کہ میں فرش پر گھٹنے رکھ کر اپنا پورا جسم بیڈ پر ڈال دوں اور اس طرح وہ میرے پیچھے دوبارہ سے آیا اور ایک بار پھر سے اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈالا اور دوبارہ سے جھٹکے دینا شروع ہوگیا، اب کی بار تقریباً بیس منٹ تک مسلسل جھٹکے دینے کے بعد وہ میری گانڈ میں فارغ ہوا میرا حال یہ تھا کہ میں خود سے کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی ۔ اس نے ہی مجھے بیڈ پر لٹایا اور مجھے زور دار پپیاں دینے کے بعد اپنے کپڑے پہن کر اپنے قالین اٹھا کر چلا گیا ۔ میں نے ہمت کر کے درازہ لاک کیا اور واپس کسی طرح لڑکتی ہوئی آکر بیڈ پر ڈھیر ہوگئی۔ پتہ نہیں کتنی دیر اسی طرح پڑی رہنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میرا بیٹا نہ اٹھ گیا ہو میں نے اٹھ کر کپڑے پہنے اور جا کر دیکھا تو میرا بیٹا سو رہا تھا۔ میں باتھ روم گئی اور خود کو اچھی طرح صاف کیا اور پھر روم میں آکر ایک ٹیبلیٹ کھائی جو کہ برتھ کنٹرول ٹیبلیٹ تھی۔ میرے شوہر ابھی اور بچہ نہیں چاہتے تھے لہٰذا ہم لوگ اس طرح اس پروگرام پر عمل کر رہے تھے۔

اگلے دن پھر اسی وقت وہ پٹھان پھر سے آیا اور ایک بار پھر مجھے سیکس کا بھرپور مزہ دے کر گیا مگر اس بار میں نے اس سے شرط رکھی کہ تم میری گانڈ میں اپنا لنڈ نہیں ڈالو گے۔ وہ بھی مان گیا اور صرف میری چوت کو ہی اپنی گرم منی سے بھر کر چلا گیا۔ بس پھر کیا تھا مجھے تو مزے لگ گئے اب شوہر نہ بھی ہو تو مجھے بہت مزے سے چودنے والا مل گیا تھا ، مگر ایک دن اس نے کیا کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو اور پٹھانوں کو بھی لے آیا اور ان تینوں نے مل کر مجھے بہت بری طرح چودا اس دن میرا حال ایسا تھا کہ جیسے میں مر جاؤں گی میرے بدن میں بالکل جان نہیں تھی۔ اگلے دن پھر وہ پٹھان آیا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا بلکہ اسکو چلتا کیا ۔ پھردن تک وہ مسلسل آتا رہا مگر میں نے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا پھر کچھ مہینے بعد میرے شوہر کا تبادلہ پھر کسی اور جگہ ہوگیا۔ پھر نہیں معلوم وہ اتنے زبردست لنڈ والا پٹھان کدھر گیا

مکافات عمل ایک بہترین اور سبق آموز کہانی

کہانی
آج میں آپ کو اپنی زندگی کا وہ کڑوا سچ بتانے جا رہا ہوں جس نے میری دنیا اندھیر کر دی میری غلطیوں کا خمیازہ میرے خاندان کو بھگتنا پڑھا میں  خود ہی اپنی اس داستان کا راوی ہوں ہو سکتا ہے کوئی میرے انجام سے  ہی سبق سیکھ لے 
جہانزیب   لغاری ) یعنی کہ میں(  دلبری کے سارے انداز  جانتا  تھا    میں نے اپنی شخصیت کے  ارد گرد  دلکشی کے سارے عنبر و لوبان سلگا رکھے تھے 
ویسے بھی کسی مرد کے آس پاس شہرت ، اعلیٰ  حسب  نسب کے ساتھ دولت کے انباروں کا اجالا ھو تو تصورات کی ڈسی صنف نازک اس کے ارد گرد منڈلانے لگتی ہیں 
جہانزیب   لغاری اٹھائیس سالہ ایک خوبرو مرد تھا اسے  خدا نے مردانہ حسن سے جی بھر کر نوازا تھا کس مہ وش میں اتنا دم تھا کہ اسے ایک دفعہ دیکھ کر دوبارہ نہ دیکھنا چاہے 
وہ میڈیکل کا اسٹوڈنٹ تھا اور یہ اس کا آخری سال تھا ساری یونیورسٹی میں اس کی ذہانت خدا ترسی کے چرچے تھے 
اسے سب دوست پیار سے جان کہتے تھے ایسا کون سا میدان تھا جہاں کا وہ شہ سوار نہیں تھا شاعری ہو یا سنگنگ کے میدان ہوں یا لڑکیوں کو لوٹنے کے وہ ہر فن میں اپنی مثال آپ تھا – 
جب وہ اشعار کہتا تو ایک منجا ہوا شاعر لگتا اور جب وہ یونیورسٹی میں یاں کسی بھی فنکشن میں اپنی آواز کا جادو جگاتا
 تو سننے والا بے ساختہ کہہ اٹھتا ایسی سنگنگ تو اس سانگ کے اصل سنگر نے بھی نہیں کی ھو کیا غضب کی آواز ہے وہ بہت ساری دل پھینک لڑکیوں کا محبوب تھا 
وہ جس سے ملتا اس سے باتیں ہی ایسی کرتا وہ خود کو دنیا کی خوش نصیب لڑکی تصور کرتی 
کسی کو اس کی شاعری پسند تھی اور کسی کو سنگنگ کوئی اس کی وجاہت کی دیوانی تھی
 تو کوئی اس کی اعلیٰ ذہانت کی اور ان مہکتی اور مچلتی جوانیوں سے لطف اندوز ہونے کے سارے ہی گر جانتا تھا اگر کوئی لڑکی اس کو بھا جاتی اور وہ اس کی ان خوبیوں پر فدا نہ ہوتی
 تو بھی اس کے ترکش میں چند ایسے تیر بھی تھے جو کبھی خطا نہ جاتے  اس نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھا تھا 
وہ محبت کے معاملے میں زخم خوردہ ہے ''بس ؛؛ بس ان کو ہر دل عزیز کرنے کو اتنا ہی  کافی تھا ہر لڑکی یہ سن کر حیران  ہوتی
 کہ کون تھی وہ بدنصیب جس نے اس شہزادے کا دل توڑا اسے اور کیا چاہیے تھا اور جہانزیب کا طریقہ واردات بھی عام مردوں سے جدا تھا جب کوئی لڑکی قریب آ کر آنچ دینے لگتی تو وہ یوں گم صم  ہو کر خلاؤں میں کھو جاتا جیسے اس کے پاس آگ نہیں برف کا تودہ  رکھا ہے 
کافی دیر خلا کی آپ بیتی سننے کے بعد وہ پائپ میں خوشبو دار تمباکو بھرکر فضا میں خوشبو دار دھواں آہوں' کی صورت میں چھوڑنے لگتے کڑوے دھوئیں کی جان لیوا خوشبو سے لڑکی کا ارمانوں بھرا چہرہ دھندلانے لگتا تو اس کی معصوم و مصفا آنکھوں میں اپنی ذات کی نفی کا کرب جاگ اٹھتا 
تب وہ ہر ندی پار کرنے کا تہیہ کر لیتی اور اگر کبھی جہانزیب کی کوئی دکھتی رگ اس کے ہاتھ آ جاتی تو وہ کچھ اور آگے بڑھنا چاہتی تب جہانزیب اپنے اسی مار ڈالنے والے انداز میں ایک ٹھنڈی سانس چھوڑتے 
اور کہتے 
'' دوست ' نہ کوشش کرو ! میں اب ان باتوں سے بہت دور ہوں ' تب وہ لڑکی تڑپ کے پوچھتی پر کیوں جان جی کیوں ؛ وہ تڑپ کے یہی سوال کرتی جاتی
 تو پھر جہانزیب ایک اور ٹھنڈی سانس چھوڑتے اور دوبارہ اپنے اندر جذب کر کے کہتے 
'' چوٹ ' کھا چکا ہوں ؛ دوبارہ نہیں کھاؤں گا بس اسی وقت وہ لڑکی تڑپ کے پوچھتی کون تھی وہ بد بخت اور کم ظرف تو جان جی اسے نرمی سے ٹوک کر کہتے پلیز اسے کچھ نہ کہو اور دوبارہ سے فضاوں میں دھواں  چھوڑنے لگتے 
''اہونہہ ! لڑکی کو اس بے وفا لڑکی پر انتہا کا غصہ آتا جو جاتے جاتے جان جی کا دل پتھر کر گئی تھی وہ جب اصرار کرتی کہ اسے بتائیں وہ کون تھی تب جہانزیب اپنی درد میں ڈوبی آواز میں کہتے میرے ساتھ کھیلتی تھی  میرے ساتھ پڑھتی تھی 
ہم نے کوئلے سے گاؤں کی کچی دیواروں پر اپنے نام لکھتے تھے - چاک کے ٹکڑے  سے بیلک بورڈ پرسلام لکھتے تھے - اور آنکھوں کی روشنائی سے ایک دوسرے کے دل پر پیغام لکھتے تھے - یہاں آ کر وہ خاموش ہو جاتے تو وہ لڑکی اضطراب میں ڈوب کر پوچھتی 
'' پھر '' جان جی پلیز پھر کیا ہوا بتائیں پلیز اور جان جی اس وقت سارے جہاں کا درد اپنے لہجے میں سمو کر کہتے '' پھر اسے عقل آ گئی '' اور دوبارہ سے خاموش ہو کر فضا میں کوئی ان دیکھی سی تحریر پڑھنے لگتے اس وقت  وہ لڑکی بے صبری سے کہتی 
'' جان جی '' اس نے آپ کو چھوڑا کیوں تو جان جی کہتے دوست ہماری وفا ہی ہمارا قصور بن گئی وہ کہتی تھی آپ کو سوائے چاہت کے آتا ہی کیا ہے میں امریکہ جانا چاہتی ہوں اور  جہانزیب آپ نہیں جاؤ گئے اس نے اپنے ایک امریکہ پلٹ کزن سے شادی کر لی اور چلی گئی 
ساتھ ہی جان جی اپنی آواز اب کی بار نمی پروتے اور اپنی قاتلانہ آواز میں دل نشین لہجے میں شعر کہتے 
 کوئی اس طرح  میرے ساتھ عداوت کرتا 
قید کر لیتا مجھے اور حکومت کرتا ....
میں نے کب کہا تھا وہ چھوڑ دے سب کو 
وہ اپنے انداز سے ہی سہی پر محبت تو کرتا 
بس یہ یہ سننا تھا کہ جان جی کا شکار وہ لڑکی لرز جاتی  جان جی کا اتنا ٹوٹا لہجہ دیکھ کر اور کہتی اف کتنی نادان تھی وہ لڑکی کم ظرف نے ایک ہیرے کی قدر نہیں کی دیکھنا جان جی وہ بھی کبھی سکھی نہیں رہے گئی 
اسی وقت جان جی اس لڑکی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتے نہیں  نہیں اسے کوئی بد دعا نہ دو  میں تو آج بھی دعا کرتا ہوں وہ جہاں رہے خوش رہے اور جان جی اب اپنے ترکش کا ایک اور تیر چھوڑتے خدا کرے اس کے نصیب کے سارے دکھ مجھے ملیں اور میرے سارے سکھ اس کو 
اور وہ لڑکی اب دل ہی دل میں سوچتی ایسے دل والے کے لئے تو سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے پھر وہ لڑکی جان جی سے کہتی پلیز کسی ایک ہی خطا میں سب کو تو سزا نہ دیں 
وہ لڑکی ڈرتی جھجھکتی اس دوراہے پر پہنچ جاتی جہاں  لاج کا گھونگھٹ اتار پھینکتے ہیں 
 جان جی آپ کسی کو اپنا لیں تو جان جی کہتے دوست کون لڑکی کسی خالی گھر میں رہنا پسند کرتی ہے میں شاید اب کسی سے پیار نہیں کر سکوں گا یہ سنتے ہی اس لڑکی کے حلق میں آنسوؤں کے گرد باد پھنس جاتے 
تب جان جی اس لڑکی کے پھول جیسے چہرے پر نظریں گاڑ کر کہتے 
تم ہی سوچوں کون لڑکی کسی ایسے مرد سے پیار کری گئی جو پہلے ہی کسی کی یاد میں اپنا آپ ہار چکا ھو اپنا سب کچھ لوٹا چکا ھو جس کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون کھو چکا ھو 
نہیں دوست ایسی کوئی لڑکی نہیں ہو سکتی بس اسی وقت وہ لڑکی تڑپ کر بلکنے لگتی 
 '' کیوں نہیں '' جان جی کیا کمی ہے آپ میں آپ جیسا کوئی نہیں ہو سکتا سب ایک جیسی نہیں ہوتیں آپ ایک دفعہ آزما کر تو دیکھیں  اس وقت وہ لڑکی اپنی نسوانی  آنا کو ایک طرف رکھ کرکہتی  جان جی  میں آپ کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں اپنا سب کچھ آپ پر وار سکتی ہوں اب جان جی اپنے ترکش کا سب سے کڑھا اور سخت تیر چلاتے  اس لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی آواز بوجھل کر کے کہتے دوست آپ ابھی یہ نہیں سمجھ رہی کیا کہہ رہی ہیں نادانی کی باتیں کر رہی ہیں ایسا کوئی نہیں کرتا کسی کے لئے سب کہنے کی باتیں ہیں 
وہ بھی اپنا تن من مجھ پر وارنے کا کہا کرتی تھی اور پھر اب جان جی ایک ٹوٹا ہوا قہقہ لگاتے اور اس لڑکی کو وہی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے  پیچھے  سے وہ لڑکی اپنے آپ سے عہد کرتی اگر اس مرد کو نہ پایا تو کچھ نہ کیا اس کی چاہے مجھے کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑھے 
آج یہی سب آنسہ جاوید کے ساتھ ہوا تھا وہ جہانزیب کے جانے کے بعد ابھی تک وہی کھڑی تھی اس کا دل تھا کہ جان جی کے لئے مچلا جا رہ  تھا 
آج اس نے اسی سوچ میں دو پریڈ مس کر دئیے وہ یونیورسٹی کی لائبریری میں اپنا سر میز پر رکھے خاموشی کی آواز میں بلک رہی تھی جان جی جا چکے تھے
 لیکن ان کی خوشبو ابھی بھی اس کے چار سو پھیلی ہوئی تھی اسی لمحے اس کی دیرینہ دوست عندلیب اسے ڈھونڈتی ہوئی وہاں آ گئی اور اسے اس حال میں دیکھ کر تڑپ کے بولی آنسہ جانو کیا بات ہے تو آنسہ نے اپنی قریبی دوست کے گلے لگ کر آنسوؤں کے دریا بہا دئیے 
عندلیب پریشان تھی اسے کیا ہوا ہے پھر کافی دیر بعد خود کو سنبھال کر اس نے عندلیب سے کہا تم کو میری قسم سچ بتانا کیا میں خوبصورت نہیں ہوں یہ سن کر عندلیب  نے کہا
 آنسہ صرف خوبصورت کہنا آپ کی توہین ہے آپ تو ایسے جسم کی مالک ھو جوان تو جوان آپ کو دیکھ کر بوڑھوں کے جذبات بھی مچل جاتے ہیں 
میں نے آج تک آپ جیسی پیاری لڑکی نہیں دیکھی یہ تھا بھی سچ آنسہ جاوید دراز قد لڑکی تھی اس کا فگر ہی ایسا تھا جس کو سب ہی للچائی نظر سے دیکھتے تھے وہ  چھتیس ڈی  اٹھائیس اڑتیس جیسے فیگر کی مالک تھی اوپر سے اس کا دودھیا رنگ
 لمبی اور اور ترچھی پلکوں کے نیچے موٹی موٹی آنکھیں
اوپر کو اٹھی مغرور ناک صراحی دار لمبی گردن کولہوں سے نیچے تک لمبے اور کالے سیاہ چمکدار بال وہ کتابی حسن  کا منہ بھولتا ثبوت تھا جو اسے ایک نظر دیکھ لیتا پھر وہ بے اختیارانہ اسے دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو جاتا عندلیب نے اس سے پوچھا کیا بات ہے 
 تو اس نے اپنی ہمراز دوست کو سب کچھ بتا دیا جسے سن کر عندلیب نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا آنسہ وہ بہت رووڈ اور سخت دل کا مالک ہے اس کے خواب اپنی آنکھوں میں مت سجانا ورنہ پچھتاؤ گئی یہاں کی کافی لڑکیاں اسے پانے کے خواب دیکھتی رہی ہیں
 جان جی کی ایک خوبی یہ بھی تھی اس کے نیچے سے اٹھ کر جانے والی لڑکی نے کبھی اپنی زبان نہ کھولی تھی یہی وجہ تھی وہ سب کی نظر میں گھمنڈی تھا 
لیکن سچ تو یہ تھا وہ اس یونیورسٹی کی کافی لڑکیوں کو اپنے توانا لن سے نواز چکا تھا ایک دو تو لیکچرار بھی تھیں
 جن کی ترستی چوتوں کو اس نے اپنے لن سے سیراب کر کے ان کی پیاس مٹائی تھی لیکن پتہ نہیں کیا جادو تھا 
جہاں زیب کے لن میں جو لڑکی ایک دفعہ اسے اپنی چوت میں لے لیتی وہ ساری عمر کے لئے اس کی غلام ہو جاتی اور اس کے راز کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتی 
                                                   ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
لغاری پیلس کے ایک شاہانہ طرز کے بیڈ روم میں آرام داہ کرسی پر جہانزیب آگے پیچھے جھول رہا تھا - اس نے آنکھیں بند کیں ہوئیں تھیں وہ خیالوں ہی خیالوں میں آنسہ کو بے لباس اپنے بازوؤں کے گھیرے میں دیکھ رہا تھا اسی وقت اس کا اکلوتا دوست عادل نواز لغاری کمرے میں داخل ہوا یار کمال ہے ابھی تک تیار نہیں ہوئے چلو جلدی سے اٹھو اور تیار ہو جاؤ جان جی نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور زیر لب مسکرا کر بولا آج خیر ہے میرے جگر پرآج بہت جلدی کا بھوت سوار ہے 
عادل نے اسے گھورتے ہوئے دیکھا اور بولا آج کیا تاریخ ہے جہانزیب نے بے ساختہ کہا سات جنوری اور ساتھ خود بھی چونک اٹھا اوہ مائی گاڈ آج تو فریال آپی کی شادی کی سالگرہ ہے یہ کہتے ہی وہ تیزی سے اٹھا اور اٹیچ باتھ روم میں گھس گیا وہ آج اپنی روٹین سے ہٹ کر صرف سات منٹ میں غسل کر کے باہر آیا 
ڈریسنگ روم میں جا کر اس نے ایک سفاری رنگ کا بہترین اور انتہائی قیمتی کپڑے کا لباس پہنا وہ اور عادل دونوں سگے چچا زاد تھے عادل اکلوتا تھا اور جہانزیب دو بہن بھائی تھے فریال ان دونوں سے  دو  سال بڑھی تھی دونوں ہی اسے دیوانوں کی طرح پیار کرتے تھے 
اور دنیا میں اگر جہانزیب کسی سے مخلص تھا تو وہ دو ہی ہستیاں تھیں ایک عادل دوسری اس کی آپی فریال عادل نے آج بلیک کلر کا سوٹ پہنا تھا جو اس پر کافی جچ رہا تھا 
لیکن جب جہانزیب ڈریسنگ روم سے باہر آیا تو بے ساختہ اسے دیکھ کر عادل کے لبوں سے دعا نکلی خدا تجھے نظر بد سے بچائے میرے شہزادے 
تو واقعی لغاری خاندان کا پرنس ہے جہانزیب کے والد  شہباز حیدر لغاری جاگیر دار ہونے کے ساتھ ہی بیورو کریٹ بھی تھے
وہ وزارت داخلہ میں فرسٹ سیکرٹری تھے - اور عادل کا والد نواز حیدر لغاری اپنے حلقے سے ممبر صوبائی اسمبلی بھی تھا اور ساتھ میں اس نے ایک بزنس ایمپائر بھی کھڑی کر رکھی تھی ان کی  کئی گھی  ملز اور شوگر ملیں تھیں اب عادل نے خود اپنی ذاتی کھاد بنانے کی فیکٹریاں لگائیں تھیں جس میں اس نے جان جی کو پارٹنر رکھا تھا وہ جان جی سے کچھ نہیں چھپاتا تھا لیکن جان جی نے اسے اپنی لوز حرکتوں کی ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی وہ خاندان کا سب سے خوبصورت اور مغرور لڑکا تھا 
جان جی ایک اصول بنا رکھا تھا کہ وہ کسی جاننے والے کی لڑکی سے سیکس نہیں کرے گا یہی وجہ تھا وہ آج بھی اپنے خاندان کی لڑکیوں کے خوابوں کا شہزادہ تھا 
اب وہ دونوں ہی اپنی ذاتی مرسڈیز میں بیٹھے اور آگے پیچھے ہی ملک ہاؤس ،میں داخل ہوئے جہاں کافی سارے مہمان آ گئے تھے 
فریال اپنے خاوند کامران ملک کے ساتھ سب کو ویلکم کر رہی تھی ان دونوں کو دیکھتے ہی کامران نے کہا لو جی آ گئے آپ کے شہزادے عادل اور جہانزیب دونوں نے اپنی گاڑی کھڑی کی اور اپنے اپنے گفٹ کے ڈبے نکال کر اپنی بہن کی طرف بڑھے 
فریال نے پیار سے دونوں کو ایک ساتھ ہی اپنے گلے لگایا اور باری باری دونوں کا ماتھا چوم کر کہا یار اتنا لیٹ اب عادل نے جان جی کی طرف دیکھا اور کہا آپی کچھ بزی سوری  ابھی وہ باتیں کر رہے تھے 
کہ اسی وقت ان کے والدین کی گاڑیاں بھی داخل ہوئیں وہ سب آگے بڑھے  اور سب کو سلام کیا 
اسی وقت نواز صاحب نے کہا دیکھا بھائی جی میں نہ کہتا تھا عادل یہ دن کبھی مس نہیں کرے  گا  اب شہباز صاحب نے پائپ کا کش لاگا کر خوشبو دار تمباکو کا دھواں چھوڑا اور بولے بیٹا آپ میرے ساتھ ہی آ جاتے تو جان جی نے حیرت سے پوچھا کہاں سے پاپا تب وہ بولے یار ایک بزنس میٹنگ تھی 
آج عادل کی اسلام آباد میں  یہ صبح تو وہی تھا کیا بنا اس میٹنگ کا مجھے باقری صاحب بتا رہے تھے آپ نے ان سے کہا ہے کل کا وقت رکھ لیں بیٹا وہ پارٹی بیرون ملک سے آئی تھی آپ آج ہی مل لیتے تو عادل نے کہا بڑے پاپا میٹنگ تو  روز چلتی ہے پر میری بہن کی سالگرہ سال بعد آتی ہے 
یہ سن کر جہاں جان جی کو اپنے دوست اور کزن پر پیار آیا وہاں فریال تو واری صدقے گئی بھائی کے اور کامران ملک بھی متاثر ہوا ان بہن بھائیوں کی محبت دیکھ کر پھر وہ سب مہمانوں سے ملے کامران ملک شوقین مزاج آدمی تھا اس نے آج کے فنکشن کو چار چاند لگوانے کے لئے 
سنگنگ اور شاعری کہنے  والوں کا بھی بندو بست کر رکھا تھا پھر جوں جوں رات چھاتی گئی محفل بڑھتی ہی گئی پھر فریال اور کامران  ملک نے اپنی شادی کا کیک کاٹا سب ہی نے ان کو وش کیا اور اپنے اپنے تحائف دئیے بعد میں سب ہی نے ہلکا پھلکا کھانا کھایا 
اب جو جانے والی تھے وہ چلے گئے اور جو آج کی محفل کی رونقیں دیکھنا چاہتے تھے وہ یہی رہے ساری رات یہ پروگرام چلتا  رہا  آج جان جی نے جان بوجھ کر خود شرکت نہ کی  کیوں کہ وہ اپنے والد اور چچا کے سامنے ایسی  حرکتیں  نہیں کرتا تھا 
                                                 ٭ ٭ ٭٭ ٭
آنسہ اپنے بیڈ پر کروٹیں بدل رہی تھی اسے کسی پل بھی چین نہیں آ رہا تھا اس کی تو جیسے نیند ہی اڑ گئی تھی آج اس کی خالہ زاد کزن مہ وش بھی آئی ہوئی تھی
 لیکن پھر بھی اس کا دل کہیں نہیں لگ رہا تھا مہ واش جو اس کے ساتھ ہی آج سوئی تھی اس کی ان کروٹوں سے اس کی آنکھ کھل گئی

شازیہ urdu sex stories

ہے اور یہ واقعہ جو میں آپ کے سامنے پیش کررہی ہوں یہ دو سال پہلے کا ہے جب میں بی اے کررہی تھی میری بڑی بہن ناذیہ کی عمر مجھ سے تین سال زیادہ ہے اس کی شادی چھ ماہ پہلے زمیندار گھرانے کے ایک لڑکے سے ہوئے ہے جو گاﺅں میں اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی کی نگرانی کرتے ہیں شادی کے دو ماہ بعد میری بہن ناذیہ میکے آئی تو اس نے مجھے کہا کہ میں گرمیوں کی چھٹیاں اس کے ہاں گزاروں جس کی میں نے حامی بھر لی
گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو میں ان کے گھر چلی گئی جب ان کے گھر پہنچی تو دوپہر کا وقت تھا اور سخت گرمی تھی گھر پہنچتے ہی میں نے نہا کر کپڑے تبدیل کئے اس کے بعد کھانا کھایا میرے بہنوئی فاروق بھی کھانے کے وقت گھر آگئے اور انہوں نے لنچ ساتھ میں کیا تھوڑی دیر کے بعد وہ دوبارہ کھیتوں کو چلے گئے
اب میں اپنی باجی کے گھر کے بارے میں بتادوں یہ گھر نہیں بلکہ ایک محل تھا جو گاﺅں سے ذرا ہٹ کر کھیتوں میں ہی بنایا گیا تھا ڈبل سٹوری اس گھر کو دیکھ کر حیرانگی ہوتی تھی کہ گاﺅں میںبھی ایسے گھر بن سکتے ہیں میری باجی نے مجھے رہنے کے لئے اپنے ساتھ والا کمرہ دیا جس کے ساتھ ایک اور کمرہ تھا جس میں ان کا دیور ایوب رہتا تھا جو عمر میں مجھ سے دو اڑھائی سال بڑا ہوگا اور پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور چھٹیاں گزارنے یہاں آیا ہوا تھا
جس روز میں یہاںپہنچی اس دن میں کافی تھکی ہوئی تھی اس لئے جلدی سو گئی اگلی صبح تقریباً پانچ بجے باجی نے مجھے اٹھایا اور چائے دی جس کے بعد مجھے کہا کہ چلو صبح کی سیر کو چلتے ہیں میں حیران ہوگئی کہ باجی اس وقت اٹھ گئی ہیں شادی سے پہلے تو اس وقت ان کی نیند شروع ہوتی تھی خیر میں چپ رہی اور ان کے ساتھ سیر کو چل دی صبح صبح ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس پر چل کر کافی مزہ آرہا تھا دس پندرہ منٹ کی واک کے بعد باجی کہنے لگی کہ چلو واپس چلتے ہیں مگر میںنے ان سے کہا کہ آپ چلیں میں آجاتی ہوں میں مزید کچھ وقت یہاں گزارنا چاہتی تھی باجی واپس چلی گئیں اور میں چلتے چلتے کھیتوں میں چلی گئی ایک جگہ میری نظر پڑی تو میں ٹھٹھک کر رہ گئی میں نے دیکھا ایوب ٹیوب ویل میں ننگا نہا رہا ہے اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا میں ایک درخت کی اوٹ میں ہوگئی اور اسے دیکھنے لگی میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی مرد کو ننگی حالت میں دیکھا تھا مجھے شرم بھی محسوس ہورہی تھی لیکن میں کھڑی رہی ایوب میری اس جگہ موجودگی سے بے خبر نہا رہا تھا اس نے پانی میں ڈبکی لگائی اور پھر باہر نکل کر کھڑا ہوگیا میری نظر جیسے ہی اس کی ٹانگوں کے درمیان گئی میرے منہ سے اوئی ماااا۔۔۔۔۔نکل گیااس سے پہلے میں نے تصویروں میں کسی مرد کے لن کو دیکھا لیکن اپنی حقیقی لائف میں پہلی بار کسی شخص کو ننگا کھڑے دیکھ رہی تھی ایوب کا بڑا سا کالا لن اس کی ٹانگوں کے درمیان جھول رہا تھا اس کے لن کے گرد کالے رنگ کے بال بھی کافی زیادہ تھے اس کے لن کے نیچے دو بال بھی نیچے جھول رہے تھے وہ میری موجودگی سے بے خبر اپنے جسم پر صابن ملنے لگا اس نے اپنی لن پر صابن ملا اور پھر پانی میں ڈبکی لگا کر باہر نکل کر کپڑے پہن لئے اس کے بعد گھر کی طرف چل دیا میں کچھ دیر وہاں رکی اور پھر میں بھی گھر کی طرف چل پڑی اس کو ننگی حالت میں دیکھ کر میں کافی گرم ہوچکی تھی گھر پہنچی تو باجی نے ناشتہ لگا دیا تھا میں ٹیبل پر آئی تو ایوب بھی آگیا اور میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا مجھے کافی شرم محسوس ہورہی تھی ناشتے کے بعد میرے بہنوئی فاروق کسی کام سے شہر چلے گئے اور باجی نے ایوب کو کہا کہ وہ شازیہ کو اپنا فارم ہاﺅس دکھا لائے جس پر ایوب کہنے لگا کیوں نہیں چلو شازیہ تمہیں اپنا فارم ہاﺅس دکھاتے ہیں صبح اس کو ننگی حالت میں دیکھنے کے بعد مجھے اس کے پاس بیٹھنے پر بھی شرم محسوس ہورہی تھی اب باجی نے مجھے اس کے ساتھ جانے کو کہہ دیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس وقت میری کیا حالت ہوگی خیر میں انکار نہ کرسکی اور اس کے ساتھ ہولی ہم لوگ پیدل ہی فارم ہاﺅس کی طرف چل دیئے فارم ہاﺅس گھر سے کچھ فاصلے پر تھا راستے میں باتوں باتوں میں میں نے محسوس کیا کہ ایوب کافی ہنس مکھ ہے راستے میں ہم لوگ باتیں کرتے گئے کچھ دیر کے بعد ہم لوگ فارم ہاﺅس پہنچ گئے جہاں اس نے مجھے اپنے کنو اور مالٹے کے باغ دکھائے اور اس کے بعد اپنے ڈیری فارم لے گیا اور کہنے لگا آﺅ میں تم کو ڈیری فارم دکھاتا ہوں اس نے بتایا کہ اس فارم میں آسٹریلین گائے ہیں جو بہت زیادہ دودھ دیتی ہیں ڈیری فارم کے ایک کونے پر ایک بیل چل رہا تھا جس کے بارے میں اس نے فخر سے بتایا کہ اس علاقے میں اس نسل کا بیل صرف ہمارے پاس ہے اس کو خریدنے کے لئے لوگوں نے ہمیں لاکھوں روپے کی آفر کی لیکن ہم نے اسے نہیں فروخت کیا ابھی باتیں کررہے تھے کہ بیل گائیوں کے پاس پہنچ گیا اور اچانک اس نے ایک گائے کی دم کو سونگھنا شروع کردیا تھوڑی دیر کے بعد اس کا بڑا سا لن باہر نکل آیا اور وہ گائے کے اوپر چڑھ گیا میں یہ سین دیکھ کر بہت شرمندہ ہوئی اور ایوب سے کہا چلو مجھے گھر جانا ہے
کیوں کیا ہوا ‘ ایوب نے پوچھا
یہ سب کیا دکھا رہے ہو تم مجھے
یہ سن کر ایوب کے چہرے پر ایک مسکان سی آگئی اور وہ کہنے لگا ارے اس میں کون سی بات ہے سانڈ کا کام ہے وہ گائے کو نئی کرتا ہے دیکھا نہیں تم نے وہ اپنا کام کررہا ہے
بیل ابھی تک گائے کے اوپر چڑھا ہوا تھا اور ایوب اسی کی طرف دیکھ رہا تھا یہ سب کچھ میری برداشت سے باہر ہورہا تھا اس لئے وہاں سے واپس کو چل دی ایوب بھی ساتھ ہوگیا اور کہنے لگا کہ یہ نیچرل بات ہے اس کے چہرے پر اب بھی عجیب سی مسکراہٹ تھی میں نے اپنے قدم تیز تیز اٹھانا شروع کردیئے ایوب نے بھی اپنی رفتار بڑھا دی اور چلتے چلتے کہنے لگا دیکھو شازیہ یہ نیچرل بات ہے انسان بھی یہی کچھ کرتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے بیڈ روم میں کرتے ہیں اور کوئی ان کو نہیں دیکھتا میں خاموشی سے چلتی رہی اور گھر آکر اپنے کمرے میں چلی گئی کمرے میں جاکر میری حالت خراب ہونے لگی میں گرم ہورہی تھی صبح صبح ایوب کو ننگی حالت میں دیکھنے کے بعد اب بیل اور گائے کا لائیو سیکس شو دیکھ کر میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں مجھے نہیں معلوم کس وقت مجھے نیند آگئی دوپہر کے وقت باجی نے مجھے اٹھایامیں نے دوپہر کا کھانا کھایا اور شام کو فاروق بھائی بھی آگئے ہم لوگوں نے مل کر کھانا کھایا اس دوران فاروق بھائی کہنے لگے شازیہ یہاں کی زندگی بھی عجیب سی لگے گی تم کو یہاں لوگ صبح سویرے اٹھ جاتے ہیں اور رات کو جلدی سوجاتے ہیں کھانے کے بعد میں اپنے اور باجی فاروق بھائی کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ ایوب باہر نکل گیا شائد وہ سگریٹ وغیرہ پینے کے لئے باہر گیا تھا میں اپنے کمرے میں آگئی ذہن میں صبح ایوب کو ننگے دیکھنے اور بیل اور گائے کے سیکس کے سین چل رہے تھے جس سے میں کافی گرم ہورہی تھی میرے جسم میں عجیب سی بے چینی ہورہی تھی کچھ دیر بستر پر لیٹی سونے کی کوشش کرتی رہی لیکن نیند نہ آئی جس پر میں نے سوچا کہ باہر چل کے تازہ ہوا میں کچھ دیر چہل قدمی کرتی ہوں یہ سوچ کر میں اپنے کمرے سے باہر آگئی گھر کے چاروں طرف برآمدہ تھا جس میں تمام بلب آف تھے میں برآمدے میں چہل قدمی کررہی تھی کہ باجی کے کمرے کی کھڑکی کے پاس پہنچی تو اندر سے کچھ آوازیں سنائی دیں جس پر میں کھڑکی کے پاس ہی رک گئی کمرے کے اندر نیلے رنگ کا زیرو کا بلب جل رہا تھا میں نے دیکھا کہ فاروق بھائی بیڈ کے پاس کھڑے ہیں انہوں نے دھوتی پہن رکھی ہے جبکہ میری باجی بیڈ کے اوپر بیٹھی ہوئی ہیں انہوں نے شلوار قمیص پہنی ہوئی ہے فاروق بھائی نے باجی کا بازو پکڑ کر ان کو اٹھایا اور ان کے ہونٹوں پر کس کردی اور کہنے لگے میری رانی آج تو بہت سیکسی لگ رہی ہو
آہستہ بولوساتھ کمرے میں نازی ہے وہ سن لے گی
وہ سو گئی ہوگی تو اس کی فکر نہ کر آج تو میں تمہاری لمبی چدائی کروں گا
چھوڑو بھی ابھی کل تو کیا تھا ‘ باجی نے خود کو فاروق بھائی سے چھڑاتے ہوئے کہا
فاروق بھائی نے ان کو پھر پکڑا اور ان کو کسنگ کرنے لگے چند منٹ کے بعد انہوں نے باجی کے کپڑے اتار دیئے اور خود بھی دھوتی اتار دی وہ باجی کو کسنگ کررہے تھے اس کے ساتھ وہ باجی کے چیتڑوں پر اپنے ہاتھوں سے تھپڑ مارہے تھے جس کی کافی آواز آرہی تھی اس کے بعد دونوں نے ایک لمبی سی جپھی ڈالی پھر کسنگ کرنے لگے اس کے بعد فاروق بھائی نے باجی کو بیڈ پر بٹھا دیا اور خود کھڑے ہی رہے اب ان کا لن میرے سامنے تھا جو کافی لمبا اور کالے رنگ کا تھا اور اس کے گرد کافی بال تھے اب باجی نے فاروق بھائی کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اس کو لالی پاپ کی طرح چوسنے لگیں مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہورہا تھا فاروق بھائی نے باجی کو بالوں سے پکڑ رکھا تھا اور وہ باجی کے سر کو آگے پیچھے کررہے تھے باجی نے اپنے ہاتھ فاروق بھائی کی پیٹھ کر رکھے ہوئے تھے اور ان کو آہستہ آہستہ سے ہلا رہی تھی تھوڑی دیر بعد فاروق بھائی کہنے لگے اب بس کر نہیں تو میں چھوٹ جاﺅں گا جس پر باجی نے ان کا لن اپنے منہ سے نکال دیا اور خود بیڈ پر لیٹ گئیں فاروق بھائی بھی بیڈ پر آگئے اور باجی کے مموں کے ساتھ کھیلنے لگے ان کو کسنگ کی پھر باجی کے جسم کے دوسرے حصوں پر کسنگ کرنے لگے پھر وہ اپنا منہ باجی کی ٹانگوں کے درمیان لے گئے اور باجی کی چوت کو چومنے لگے باجی کے منہ سے آہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آواز نکل آئی تھوڑی دیر ایسے ہی رہنے کے بعد وہ اٹھے اور باجی کی ٹانگوں کے درمیان آگئے انہوں نے باجی کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور اپنا لوہے کے راڈ جیسا لن باجی کی پھدی پر رکھا اور پھر پوری طاقت سے اس کو اندر ڈال دیا باجی کے منہ سے اوئی ئی ئی ئی ئی ئی میں مر گئی کی آواز نکلی لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے منہ سے مزے کی ہلکی ہلکی سی آوازیں آنے لگی اس کے بعد فاروق بھائی زور زور سے دھکے دینے لگے فاروق بھائی اپنے لن کو پورا باہر لاتے اور جیسے ہی زور سے اندر کرتے باجی آہ ہ ہ کرتی جس سے فاروق بھائی کے گھسے کی طاقت اور بڑھ جاتی ہر گھسے سے باجی کے ممے بھی ہل رہے تھے اوہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہاںںںں اوہ ہ ہ ہ ہ ام م م م م اف ف ف باجی کے منہ سے مسلسل مزے کی آوازیں نکل رہی تھیں باجی نے اپنے بازو فاروق بھائی کے جسم کے گرد لپیٹ رکھے تھے جن کی پکڑ ہر گھسے کے ساتھ ہی سخت سے سخت ہوتی جارہی تھی تھوڑی دیر ایسے ہی گھسے مارنے کے بعد فاروق بھائی اوپر سے اٹھ گئے انہوں نے اپنا لن پھدی سے نکال لیا اور باجی سے کہنے لگے اب گھوڑی بن جا جس پر باجی حکم بجا لائی اور الٹی ہوکر اپنے بازو بھی بیڈ پر لگا لئے انہوں نے اپنے گٹنے ٹیک لئے جس پر ان کی پھدی بھی مجھے صاف نظر آنے لگی ایسے گھوڑی بننے کے بعد باجی کہنے لگی آجا راجا گھوڑی پر چڑھ جا فاروق بھائی اس کے پیچھے گھٹنے ٹیک کر کھڑے ہوگئے اور اپنا لن چوتڑوں کے درمیان سے ان کی پھدی پر سیٹ کرنے لگے انہوں نے اپنا لن ایک ہی جھٹکے سے باجی کی پھدی کے اندر ڈال دیا اور اس کو تیزی سے حرکت دینے لگے جس سے کمرے میں پچ پچ کی آوازیں آنے گلی ہر جھٹکے سے باجی کے ممے نیچے سے ہل رہے تھے جن کو کبھی کبھی فاروق بھائی اپنی رفتار تیز کرکے پکڑتے اور پھر ان کو چھوڑ کر پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ گھسا مارتے تھوڑی دیر کے بعد فاروق بھائی نے اپنا لن پھر باہر نکالا اور کہنے لگے رانی آج مزہ آگیا آج میں پیچھے سے بھی کروں گا جس پر باجی کہنے لگی
رحم کرو راجا میں مر جاﺅں گی
آج نہیں چھوڑو ں گا
پھر تھوڑا سا تیل لگا لیں اپنے لن پر جس پر فاروق بھائی چل کر ڈریسنگ ٹیبل پر گئے اور تیل کی شیشی پکڑ کر لے آئے اور بوتل کو کھول کر اپنی ہتھیلی پر تیل ڈال کر اپنے لن کو ملنے لگے اب ایسی پوزیشن میں تھے کہ فاروق بھائی کی کمر میری طرف آگئی مجھے نہیں معلوم کہ کیا کررہے تھے صرف مجھے باجی کی قدرے زور سے آواز سنائی دی ” میں مررررر گئی“ ہائے“
”چپ کر اور تھوڑا سا رہ گیا ہے“ فاروق بھائی کی آواز آئی
انہوں نے اور تھوڑا زور لگایا اور پھر کہنے لگے لے اب پورا لن تیری گانڈ کے اندر چلا گیا ہے اب آئے گا مزہ ‘ پھر وہ آگے پیچھے ہونے لگے اور باجی کی آواز بھی آنے لگی ہائے ئے ئے ئے میں مر گئی اور نہیں تھوڑا آہستہ اور نہیں نہ ہ ہ ہ ہ میں مر گئی آہ ہ ہ اب جلدی کرو اور پھر چند منٹ کے بعد فاروق بھائی کی آواز آئی میں چھوٹنے لگا ہوں اور چند سیکنڈکے بعد فاروق بھائی پیچھے ہوئے اور بیڈ پر لیٹ گئے اور باجی جو گھوڑی بنی ہوئی تھیں وہ بھی لیٹ گئیں فاروق بھائی باجی سے کہنے لگے
کیسا لگا رانی
آج تو آپ نے مار ہی ڈالا ‘ باجی نے کہا اور ساتھ ہی فاروق بھائی کو کسنگ کرنے لگیں
میں چپکے سے اپنے کمرے میں آگئی اگلی صبح میں واک کے لئے نکلی تو اسی جگہ جاکر رک گئی جہاں کل ایوب کو نہاتے ہوئے دیکھا تھا آج بھی وہ وہیں موجود تھا اورنیکر پہنے ہوئے تھا وہ اپنے جسم کو تیل کی مالش کررہا تھا میں ایک درخت کی اوٹ میں کھڑی ہوکر اس کو دیکھنے لگی اس نے جسم کے بعد اس نے نیکر میں ہاتھ ڈالا اور اپنے لن کو تیل کی مالش کرنے لگا جس سے اس کے لن میں حرکت ہوئی اور وہ نیکر سے ہی دیکھنے لگا وہ شائد کھڑا ہورہا تھا اس کے بعد اس نے نہانا شروع کردیا آج اس نے نیکر نہیں اتاری تھی میں گھر کو لوٹ آئی اور ناشتے کے بعد کمرے میں آگئی اس رات بھی کھانا حسب معمول جلدی کھایا اور اپنے کمرے میں آگئی مجھے نیند نہیں آرہی تھی تھوڑی دیر کے بعد میں پھر باہر آئی اور اسی کھڑکی کے پاس کھڑی ہوگئی جہاں سے فاروق بھائی کی آواز آرہی تھی اب کیا شرما رہی ہے دیکھ میرا لن کیسے پھدک رہا ہے تیری پھدی کے اندر جانے کے لئے اور تیری پھدی بھی بے چین ہے اپنے اس لور کے لئے
اب چپ بھی کر بے شرم کہیں کے اور پھر کمرے سے سیکسی آوازیں آنے لگیں اوئی ماں اتنے زور سے تو نہ کرو
تیری چوت اتنی چکنی ہے کہ خود کو روک نہیں سکتا آج میں دوسری پوزیشن میں کرتا ہوں میں نے دیکھا آج فاروق بھائی اور باجی دونوں کے منہ ایک دوسرے کی شرم گاہ پر تھے اور دونوں کے منہ سے آوازیں آہ ہ ہ ہ ہ م م م م م م آہ ہ یس آو و و گڈ“ آرہی تھیں تھوڑی دیر کے بعد باجی کہنے لگیں اب آجاﺅ
کہاں پھدی منہ یا گانڈ
جہاں تم چاہو میرے راجا
پھر آج بھی گانڈ
پھر میں نے دیکھا باجی کرسی کے اوپر بازو رکھ کر کھڑی ہوگئیں اور فاروق بھائی نے ان کی گانڈ میں اپنا لن ڈال کر ان کو چودنا شروع کردیا ابھی ان کا کھیل جاری تھا اور میں ان کو بغور دیکھ رہی تھی میں اس وقت کا فی ہاٹ ہوچکی تھی اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میرے پیچھے کوئی کھڑا ہوا ہے میں نے مڑ کر دیکھا تو ایوب میرے پاس ہی کھڑا اندر کا منظر دیکھ رہا تھا میں نے اس کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے پکڑ لیا اور ایک ہاتھ میرے منہ پر رکھ کر مجھے تقریباً اٹھائے ہوئے میرے کمرے میں لے آیا اور کمرے کا دروازہ بند کردیا اور بولا کیا دیکھ رہی تھی میں شرم سے مری جاری تھی میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ کو چھپا لیا چند لمحے بعد ہنستے ہوئے بولا اس میں شرمندہ ہونے والی کون سی بات ہے تمام مرد اور عورتیں یہ کام کرتی ہیں مرد کا کام ہی اپنی عورت کی چدائی کرنا ہے اس وقت میں کافی ہاٹ تھی اور میرے ہونٹ خشک ہورہے تھے ایوب نے مجھے آہستہ سے چھوا اور میرے بدن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا مجھے اس کا بہت مزہ آنے لگا اچانک وہ اپنا منہ آگے لایا اور میرے ہونٹوں پرکس کردی اس سے پہلے کہ مجھے کچھ سمجھ آتا کہ کیا ہورہا ہے اس نے میری شلوار اتار دی اور میرے منع کرنے کے باوجود زبردستی میری قمیص تھی اتار دی میں نے نیچے کچھ بھی نہیں پہن رکھا تھا اس لئے شلوار اور قمیص اترتے ہی پوری ننگی ہوگئی میں فوری طورپر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے جسم کو چھپانے کی کوشش کی میں نے اپنے ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لئے اور ٹانگوں سے اپنی پھدی کو چھپا لیا ایوب نے میرے ہاتھ پیچھے کئے اور اپنی دھوتی بھی اتار کر مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور میرے جسم پر کسنگ کرنے لگا اس کا لن پوری طرح کھڑا ہوچکا تھا اور مجھے چبھ رہا تھا وہ میرے اوپر ہی لیٹا ہوا تھا کسنگ کرتے کرتے ایوب کہنے لگا ” تو بہت چکنی ہے شازی تیرے ممے انار جیسے ہیں اور تیرے گلابی ہونٹ کتنے سیکسی ہیں اور تیری گانڈ۔۔۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے اس نے میری گانڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا اور پھر اپنی ایک انگلی میری گانڈ کے اندر گھسا دی درد کی ایک لہر میرے پورے جسم میں دوڑ گئی میں نے اپنے منہ سے نکلنے والی چیخ کو بہت مشکل سے کنٹرول کیا کیوں کہ ساتھ والے کمرے میں باجی اور فاروق بھائی موجود تھے اگر وہ سن لیتے تو کام بہت خراب ہوجاتا اس کے بعد ایوب نے اپنا لن میرے ایک ہاتھ میں پکڑا دیا اور بولا دیکھ میرا لن کتنا تگڑا ہے اس کے بعد اس نے اپنا ایک ہاتھ میری ٹانگوں کے درمیان میں گھسا دیا اور پھر بولا تیری چوت کتنی چکنی ہے اس نے اپنی ایک انگلی میری چوت کے اندر ڈال دی جو گیلی ہوچکی تھی پھر اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر آہستہ سے بولا تیری چوت میرے لن کی بھوکی ہے مجھے اس بات کی فکر ہورہی تھی کہ جیسے کچھ دیر پہلے میں اور ایوب دوسرے کمرے میں باجی اور فاروق بھائی کی آواز سن رہے تھے اسی طرح باجی اور فاروق بھائی بھی اس کمرے سے ہماری آواز سن سکتے تھے میں نے ایوب اور کان میں آہستہ سے کہا دیکھیں دوسرے کمرے میں باجی اور فاروق بھائی ہے وہ سن لیں گے جس پر ایوب کو بھی خطرے کا احساس ہوا جس پر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے بھی کھڑا کر کے چلنے لگا میں نے کہا ” کہاں“ تو کہنے لگا ” میرے پیچھے آﺅ“اس نے اپنی دھوتی جبکہ میں نے اپنی شلوار اور قمیص اٹھائی اور کمرے سے نکل آیا ہم دونوں ننگے تھے میں اس کی رہنمائی میں کمرے سے تقریباً بیس قدم کے فاصلے پر ایک اور کمرے میں چلی گئی جو گیسٹ روم کی طرح تھا جس میں دو بیڈ تھے اور اٹیچ باتھ روم تھا کمرے میں آتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور اپنی دھوتی اور میرے ہاتھ سے شلوار قمیص پکڑ کر نیچے پھینک دی اور مجھے بیڈ پر لٹا دیا اس کے بعد میرے جسم پر کسنگ کرنے لگا میرے ہونٹ‘ گردن‘ گالوں‘ بازوﺅں ‘ میرے مموں پیٹ اور پھر۔۔۔۔۔۔اس کے گرم ہونٹ میری پھدی کے ہونٹوں پر آگئے اس نے پہلے میری پھدی کے ہونٹوں کو چوسا پھر اپنی زبان اس کے اندر ڈال دی میرے پورے جسم کے اندر مزے کی ایک لہر سی دوڑ گئی میں ہواﺅں میں اڑ رہی تھی میں نے اس کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا چند منٹ بعد اس نے اپنا منہ ہٹایا اور میرے جسم کے اوپر والے حصے پر لے آیا اور پھر بیٹھ کر اپنا لن پکڑا اور میرے منہ کے اوپر اس کی ٹوپی رکھ دی جو بہت گرم تھا اور اس کے اندر سے ایک عجیب قسم کی بو آرہی تھی اور اس کے سوراخ سے مائع نکل رہا تھا پھر وہ مجھے کہنے لگا اس کو چوسو مزہ آئے گا میں کوئی مزاحمت نہ کرسکی اور اس کے لن کو منہ میں ڈال لیا اس کا صرف ٹوپا ہی میرے منہ میں تھا اس وقت میرے ذہن میں ایک دن پہلے والا سین آگیا جب باجی فاروق بھائی کا لن چوس رہی تھی میں نے اسی طرح لن کو چوسنا شروع کردیا کچھ دیر بعد ایوب نے مجھے روک دیا اور اپنا لن میرے منہ سے نکال لیا اس نے مجھے لٹایا اور پھر میرے ٹانگوں کے پاس آگیا اس نے میری ٹانگوں کو کھولا اور اپنے لن کو میری پھدی کے اوپر رکھ کر بولا ” اب میں اپنے لن کو تمہاری پھدی سے چسواﺅں گا“
نہیں بابا نہیں اتنا لمبا اور موٹا میں نہیں یہ میرے اندر نہیں جاسکتا یہ تو فاروق بھائی سے بھی بڑا ہے میں مر جاﺅں گی“ میرے منہ سے غیر ارادی طورپر نکل گیا
ایوب کے منہ پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور پھر وہ کہنے لگا چپ کر دیکھا نہیں بھیا کیسے بھابھی کو چود رہے تھے اب میں تجھے اسی طرح چودوں گا آج سے تو میری بیوی اور میں تیرا خاوند اب تو صرف مجھ سے ہی اپنی پھدی اور گانڈ مروائے گی
اچانک مجھے میری ٹانگوں کے درمیان درد سا محسوس ہوا جیسے کوئی گرم لوہے کی چیز میری پھدی کے اندر جارہی ہے میں نے دیکھا ایوب کچھ زور لگا رہا ہے میری آنکھوں سے آنسو نکل کر میرے گالوں پر آگئے میں نے ایوب سے التجا کی کہ اب بس کرے مگر وہ ہنسا اور مزید زور لگا دیا میری پھدی میں تکلیف مزید بڑھ گئی میں نے چیخ مارنے کے لئے منہ کھولا تو اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے اور ان کو چوسنے لگامیری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آگیا جو چند سیکنڈ تک رہا پھر آہستہ آہستہ اندھیرا ختم ہونے لگا لیکن درد تھا کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ایوب مسلسل میرے ہونٹ چوس رہا تھا اور اپنے ایک ہاتھ سے میرے مموں کو مسل رہا تھا اس کے ناک سے ہوںںںں ہوںںںں کی آواز آرہی تھی پھر اس نے میرے کان میں ہلکے سے کہا ”تیری چوتکا پردہ پھٹ گیا ہے میرا لن تیری پھدی کے اندر چلا گیا ہے اب میں تیری جم کر چدائی کروں گا اس کے بعد اس نے اپنے جسم کو تھوڑا سا اوپر کیا اور اپنی ہپ کو اوپر اور نیچے کی طرف حرکت دینے لگا ہر بار جب وہ اپنی ہپ نیچے کی طرف لاتا تو اس کا لن میری پھدی کے اندر کسی چیز کے ساتھ ٹکراتا پانچ چھ منٹ کے بعد مجھے بھی مزہ آنے لگا میں نے اپنی ٹانگیں مزید اوپر کیں اور اس کے گرد لپیٹ لیں وہ مجھے کتنی دیر تک پمپنگ کرتا رہا کچھ دیر بعد وہ پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا ” اب تو گھوڑی بن جا میں تیری گانڈ ماروں گا“ میں نے اس کے لن کو دیکھا تو بہت خطرناک لگ رہا تھا میں نے ایوب کی بات سن کر کہا کبھی نہیں جس پر وہ کہنے لگا گانڈ مارنے اور مروانے کا مزہ کچھ اور ہی ہے میری جان
مزہ تو تم کو ملے گا اور میں درد سے مر جاﺅں گی ’ میں نے اس کو جواب دیا
وہ پھر بولا اپنی گانڈ مروا کے دیکھ کتنا مزہ ملتا ہے تجھے دیکھا نہیں تیری باجی کتنے مزے سے گانڈ مرواتی ہے
اس کی بات سن کر میں بھی گھوڑی کی طرح ہوگئی اور اپنی گانڈ اس کے سامنے کردی تو اس نے کہا اس کو میرے لئے کھولومیں نے اس کے حکم کے مطابق اپنی گانڈ کو کھولنے کے لئے تھوڑا سا زور لگا اس وقت میرے کندھے بیڈ پر تھے اور میرا منہ تکیے کے اوپر تھا اس نے میرے ہاتھ میرے سر کے اوپر کردیئے پھر میرے پیچھے آگیا اور میری گانڈ کے اندر ایک انگلی ڈال دی پھر دوسری تیسری اور پھر چوتھی بھی ڈال دی اور پھر ان کو تھوڑی دیر ہلاتا رہا مجھے کچھ درد بھی ہورہا تھا اور مزہ بھی آرہا تھا پھر اس نے اپنا لن میری گانڈ کے اوپر رکھا اور اس کو اندر کرنے کی کوشش کرنے لگا مجھے باجی کی بات یاد آگئی میں نے ایوب سے کہا کہ تھوڑا تیل لگا لو مگر ایوب نے کہا یہاں تیل نہیں ہے تو ڈر مت میں تھوک لگا لیتا ہوں اس نے اپنا منہ میرے چوتڑوں کے پاس کیا اور میری گانڈ کے اوپر تھوک دیا پھر اپنا لن میری گانڈ کے اوپر رکھ دیا اور اس کو نیچے کی طرف دبانے لگا اس کا لن تھوڑا سا اندر گیا تو مجھے کافی تکلیف ہوئی اور میں نے اپنے چوتڑ ہلا کر اس کا لن باہر کردیا اس نے پھر میرے چوتڑ سیدھے کئے اور مجھے نہ ہلنے کی ہدایت کرکے اپنا لن میری گانڈ کے اندر ڈالنے لگا میرا منہ تکیئے کے اندر دھنس گیا اور میرا چہرا درد سے سرخ ہوگیا ” اوئی ئی ئی ماں میں مر گئی میں مر گئی نکالو اس کو “ میرے منہ سے نکلا مگر ایوب نے میری کوئی بات نہ سنی اور میرے مموں کو پکڑ کر مزید زور لگانے لگا اور پھر کہنے لگا کم آن کم آن لے اس کو اپنی گانڈ کے اندر “ میرے آنسو بدستور جاری تھے مگر وہ نہ رکا اور آخر کار اس کا لمبا اور سخت لن میری گانڈ میں پورا چلا گیا جس پر اس کے منہ سے نکلا ”یس س س س “

وہ کچھ دیر رکا اور پھر اپنے لن کو حرکت دینے لگا اس کا لن جب بھی میری گانڈ کے اندر جاتا تکلیف ایک دم بڑھ جاتی اور جب لن باہر آتا تو اس میں کچھ کمی ہوجاتی وہ آہستہ آہستہ اپنے کام میں جتا رہا اس کے ہاتھ ابھی میرے مموں پر تھے جب وہ میرے اندر اپنا پورا لن ڈال دیتا تو مجھے اپنی پھدی کے اوپر اس کے ٹٹے ٹکراتے ہوئے محسوس ہوتے اور اس کے بال مجھے چبھتے چند منٹ بعدمیرا درد کم ہوگیا اور پھر اس نے میرے بال پکڑ کر میرا منہ اوپر کیا اور کہنے لگا اب تیری گانڈ ڈھیلی ہوگئی ہے اب تجھے بھی مزہ آئے گا اس کے بعد اس نے اپنے جھٹکوں کی رفتار ایک دم بڑھ ا دی دس منٹ کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اس کے لن سے میری گانڈ کے اندر کچھ مائع نکل رہا ہے چند لمحے بعد مجھے لگنے لگا کہ ایوب کا لن کچھ ڈھیلا ہورہا ہے اس کے بعد اس نے میری گانڈ سے اپنا لن نکال لیاوہ میرے اندر ہی فارغ ہوگیا تھا مجھے اس وقت بہت زیادہ پین ہورہی تھی میں نے ایوب سے کہا کہ میں درد سے مرے جارہی ہوں میری چوت میں بھی جلن ہورہی ہے اس نے مجھے کس کیا اور کہنے لگا جانو ڈر مت کچھ بھی نہیں ہوگا یہ کہہ کر اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا پھر ہم دونوں بیڈ کے اوپر لیٹ گئے تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد اس نے ایک بار پھر مجھے چودا اور اس نے پھر اپنے لن کا رس میری گانڈ کے اندر ہی چھوڑا اس کے بعد میں اپنے اور وہ اپنے کمرے میں جاکر سو گئے اگلی صبح باجی نے ناشتے کے لئے اٹھایا میں نے ناشتہ کیا اور پھر کمرے میں جاکر سو گئی باجی نے مجھے مورننگ واک کے لئے کہا مگر میری گانڈ اور چوت کے اندر درد ہورہی تھی میں نے نیند کا بہانہ کیا اور اپنے کمرے میں جاکر سو گئی شام کو اٹھی تو کھانا کھانے کے بعد جب سو گئے تو پھر ایوب میرے کمرے میں آگیا اور مجھے لے کر اسی کمرے میں چلا گیا جہاں ہم نے پھر دو بار سیکس کیا اس کے بعد پورا مہینہ ہم لوگ مزے کرتے رہے جب مجھے مینسز ہوئے ان دنوں میں بھی ہم لوگ ملتے رہے ان دنوں ایوب صرف میری گانڈ مارتا ایک مہینے کے بعد میں واپس اپنے گھر آگئی اگلے سال بھی میں چھٹیاں گزارنے اپنی باجی کے گھر گئی اور خوب مزے کئے

سوامی جی نے میرا دودھ نکالا


لا
سوامی جی نے میرا دودھ نکالا
سوامی جی نے میرا دودھ نکالا
دوستوں یہ سٹوری میں نے نیٹ پر انگلش میں پڑھی تھی اس کا اردو ترجمہ کر رہا ہوں۔
میرا نام سونالی ہے۔ میں دہلی میں رہتی ہوں۔ لوگ کہتے ہیں میری شکل جوہی چاولہ سے بہت ملتی ہے۔ میرا رنگ گوراہے اور میرا فگر ۳۶۔۲۸۔۳۴ ہے۔ میں شادی شدہ ہوں اور ایک بچے کی ماں ہوں۔ اس وقت میری عمر ۲۰ سال تھی جب یہ واقعہ پیش آیا۔میں اور میرے شوہر خوشحال شادی شدہ ذندگی گزار رہے ہیں۔ شادی کے ایک سال بعد میں نے ایک بچے کو جنم دیا۔ہم نے بچے کا نام رکھنے کی رسم کے لیے ایک لوکل پنڈت کو بلایا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے اس وقت صبح کے ۱۱ بجے تھے اور پنڈت ہمارے گھر داخل ہو ا تھا۔ اس کی عمر ۶۰ سال سے اوپر ہوگی۔اس کی سفید کالی مکس مونچھیں اور دھاڑی تھی۔ سر پر بہت کم بال تھے۔پنڈت کو ہم نے خوشامدیدکہا۔ اس نے ہمارے بچے کا،میرا اور میرے شوہر کا جنم دن اور پیدائش کا وقت پوچھا۔ میں نے اس کو یہ سب بتا دیا۔ اس نے یہ سب کاپی پر لکھا اور میرے بچے کے لیے اجے نام رکھنے کا مشورہ دیا۔میں نے اس کے چہرے پر پریشانی دیکھی۔ میں نے کہا ’’سوامی جی کیا بات ہے؟ ‘‘تو اس نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا’’ تمہارے نئے بچے کا ستاروں کا حال کچھ اچھا نہیں ہے، میرا مطلب ہے کہ بچے اور اس کے باپ کے لیئے کچھ مسائل ہیں جو ان کی ذندگیوں پر اثر انداذ ہوں گئے‘‘۔میں یہ سن کر شاک میں آگئی۔ میں نے سوامی سے پوچھا ’’ اسکا علاج ہے کوئی؟‘‘تو اس نے کہا ۔ ’’ہاں ہے علاج اس کااور وہ تم کو کرنا ہوگا‘‘۔میں نے پوچھا’’ کیا علاج ہے اس کا؟‘‘ تو اس نے کہا کہ ’’تمہیں ایک ماہ کے لیے آشرم میں رہنا ہو گا،پوجا کرنی ہوگی ،میں تمہیں اس کے بارے میں گائیڈ کردوں گا‘‘۔ میں نے سوامی جی سے کہا کہ میں اس کے پاس ضرور آؤں گی۔ اس رات میں نے اپنے شوہر سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اگلے ماہ ان کو لندن جاناہے بزنس کے سلسلے میں اس لیے وہ تو ادھر ہوں گئے نہیں۔میں نے کہا کہ میں اپنی امی کو بلا لوں گی کچھ عرصے بچے کی دیکھ بھال کے لیے۔اگلے دن میں نے سوامی جی کو گھر بلایا اور کہا میں تیا ر ہوہوں اس نے مجھے ایڈریس دیا اور چلا گیا۔میں نے پیکنگ کی اور آشرم جانے کے لیے روانہ ہو گئی جو دہلی سے باہر ہے۔ آشرم پہنچی تو وہاں ایک گوروکال میرا انتظار کر رہا تھا وہ مجھے آشرم کے اندر لے گیااور مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں مجھے رہنا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد سوامی میرے پاس آیا اور کہا کہ میرے پوجا آج رات کو شروع ہو جائے گی۔پھر رات ۱۰ بجے سوامی میرے پاس آیا اور ایک بیگ دیاجس میں کپڑے تھے اور مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ میں اس کے پیچھے چلتی رہی۔ ہم آشرم سے نکل کر باہر آگئے اور پیدل چلنے لگے۔ ۴۰ منٹ چلنے کے بعد ایک چھوٹاسا گھر آیا ۔ سوامی اس میں داخل ہوا۔میں بھی اس کے پیچھے پیچھے اس میں داخل ہو گئی۔سوامی نے مجھے وہ کپڑے پہننے کو کہا جو اس نے مجھے دیئے تھے۔میں نے کپڑے پہنے جو کہ ایک سفید رنگ کی ساڑھی تھی لیکن بلاؤز نہیں بدلا۔سوامی مجھے دیکھ کر کہنے لگا۔’’ میرے بچے تمہیں صرف وہ ہی کپڑے پہننے ہوں گئے جو میں نے تمہیں دیئے ہیں‘‘۔میں نے پوچھا میں بلاؤزبھی نہیں پہن سکتی؟اس نے کہا’’ نہ صرف بلاؤز بلکہ کچھ بھی نہیں پہننا سوائے ان کپڑوں کے جو میں نے دیئے ہیں‘‘۔مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔اس نے کہا ’’پوجا اس طریقے سے شروع ہو گی‘‘۔میں نے وہ کیا جس کا سوامی نے کہا۔ مجھے اپنا جسم نمایاں ہوتا ہوا محسوس ہوا۔جب میں واپس آئی تو اس نے ایک منتر پڑھا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔پھروہ ایک کمرے میں آگیا ۔ میں اس کے پیچھے تھی۔ اس نے مجھے پانی کا گلاس پینے کو دیااور کہا کہ ساڑھی اتار کر فرش پر لیٹ جاؤ۔میں پریشان ہو گئی۔حیرت کے مارے میرے منہ سے آواذ نہیں نکل رہی تھی۔’’سوامی جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔تو وہ بولا ’’تمہارے بیٹے کا ستارہ بد اثرات کی لپیٹ میں ہے،اس کا اثر ختم کرنے کے لیے یہ سب کرنا ہو گا،اس کے لیے تمہیں سارے کپڑے اتارنے ہوں گئے‘‘۔ میں نے کہا’’ پر سوامی جی میں تو عورت ہوں میں کیسے کپڑے اتار سکتی ہوں‘‘۔ تو اس نے کہا’’یہ پوجا ہے پریشان مت ہو۔ تم ساڑھی اتار دو ورنہ یہ علاج شروع نہیں ہو سکے گا‘‘۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ساڑھی اتارنا شروع کر دی۔ اب میرا نازک جسم بالکل کپڑوں کے بغیر تھا۔سوامی کی نظریں میرے جسم کا طواف کر رہیں تھیں۔میں نے ذمین پر ساڑھی بچھائی اور اس پر لیٹ گئی۔ سوامی اب میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔میرے گلابی نپل سردی کی وجہ سے اکڑ رہے تھے۔مجھے سوامی کی نظریں اپنے جسم میں گڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں سے مجھے ریپ کر رہا ہو۔اس نے تیل جیسی کوئی چیز اپنی ہاتھ پر ڈالی اور اور میری ناف میں ڈالنے لگا۔مجھے شاک لگا۔وہ بولا ’’میں تمہیں بداثرات سے دور لانا چاہتا ہوں تاکہ علاج کے بعد تم اس سے مکمل طور پر بچ سکو‘‘۔اس نے اپنے کھردرے ہاتھوں سے میرے پیٹ پر تیل جیسی چیز کو ملنا شروع کیا اور اس کے ہاتھ اوپر ہوتے ہوئے میری دودھ کی وادیوں تک پہنچنے لگے۔ میں اپنی نازک چھاتیوں پر اس کی کھردری انگلیوں کا دباؤ محسوس کر رہی تھی۔میرے پنکش نپل اب لال ہو چکے تھے اور سخت بھی۔ لیکن اس نے ابھی تک ان کو چھوا نہ تھا۔وہ میرے دودھ کی اوپر کی لکیروں اور دودھ کے نیچے والی جگہ پر ہاتھ سے مساج کر رہا تھا۔پھروہ اپنا ہاتھ میری بغلوں تک لے گیا۔مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ میں نے کہا’’ سوامی جی آرام سے کریں گدگدی ہوتی ہے‘‘۔اس نے کہا’’ شانت رہو مجھے تمہارے جسم کا ہر حصہ کور کرنا ہے‘‘۔پھر اس کے ہاتھ میرے کھڑے نپلوں تک گئے۔ میری منہ سے عجیب سی آواذ نکلنے لگی’’ آہ آہ آہ آہ آہ آہ آہ اوہہ آؤچ‘‘۔میری آواذوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نے میرے نپل ہاتھ سے ملنا اور مسلنا شروع کر دئیے۔اس کر کھردری کھال سے میر نپل مزید تن گئے تھے۔میں کہنے لگی ’’سوامی جی یہ آپ کیا کر رہے ہیں ۔مہربانی کر کے جلدی پوجا ختم کریں‘‘۔اب اس نے تیل میر ی نیچے کی وادی میں لگانا شروع کیا۔میں اپنی چوت کے سوراخ میں کچھ گیلا گیلا محسوس کر رہی تھی۔ اس نے میری دونوں ٹانگیں پھیلائیں۔ اب میر ی وادی کا سوراخ اس کے بالکل سامنے تھاجو کہ ملائم بالوں سے ڈھکا ہو ا تھا۔ اب اس کھردرے ہاتھ میری وادی کی اوپر سیر کر رہے تھے۔میں مدہوش ہو رہی تھی۔مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔میں اب مزہ لے رہی تھی۔سوامی نے پوچھا سونالی تم کیا چاہتی ہو؟میں نے پوچھا سوامی جی آپ کیا پوچھنا چاہتے ہو؟اس نے کہا سونالی میں تمہیں چاہتا ہوں ۔ کیا تم مجھے چاہتی ہو؟میں نے کہا ’’میں آپ کو چاہتی ہوں سوامی جی! مجھے لے لو‘‘۔اور اس نے اپنی موٹی انگلی میری چوت میں داخل کر دی ۔ میں ذور سے چلائی’’آؤچ‘‘ ۔وہ آہستہ سے اوپر آیا اور میرے نرم نرم دودھ سے ذیادہ سفید گالوں کو چومنے لگا ۔ اس کے بالوں والے منہ سے میں پاگل ہورہی تھی ۔سوامی بھی میرے گالوں کو بے تحاشہ چوم اور چاٹ رہا تھا۔ایک نرم و نا زک جسم ایک ۶۵ سالہ بڈھے کے ہاتھوں میں تھا۔کافی دیر میرے گالوں کو چومنے کے بعد وہ ہونٹوں پر آیا۔وہ اپنے موٹے کالے ، کھردرے ہونٹوں میں میرے کومل،ملائم ہونٹ لے کر چوسنے لگا۔ میرے شہد کی طرح میٹھے ہونٹوں نے سوامی کو تو پاگل بنا دیا تھا۔ وہ مزے سے میرے اوپر لیٹ کر میرے ہونٹوں کو چو س رہا تھا۔ ۲۰منٹ میرے ہونٹوں کا رس پینے کے بعدوہ میرے کانوں کے نرم حصے کو منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ اس کے بعد وہ میرے گلے سے ہوتا میرے چھاتیوں تک آیا۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگا ’’سونالی میں تمہارا دودھ پینا چاہتا ہوں (ان دنوں میرا بچہ دودھ پیتا تھااس لیے میری چھاتیاں ہر وقت دودھ سے بھری رہتیں تھیں)۔ میں جانتا ہوں یہ تم نے اپنے بچے کے لیے رکھا ہو ا ہے لیکن میں اسے چکھنا چاہتا ہوں۔ کیا میں پی سکتا ہوں؟‘‘۔میں نے کہا ’’سوامی جی، جی بھر کر میرا دودھ پیؤ‘‘۔یہ سنتے ہی وہ کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح میرے ناذک نپلوں پر اپنے بالوں سے بھرے منہ کے ساتھ جھپٹااور اپنی ذبان میرے نپل کے گرد پھیرنے لگااوراسے منہ میں بھر کر چوسنے لگا ،اور میرا دودھ میرے چھاتیوں سے نکل کر سوامی کے منہ میں جانا شروع ہو گیااور وہ اسے کسی بھوکے بچے کر طرح پینا شروع ہو گیا۔ وہ بہت ذور سے میرے چھاتیاں چوس رہا تھا۔اس کے نپل چوسنے سے پچ پچ پچ پچ پچ کی آواذیں آرہی تھیں جو مجھے اور ذیادہ گرم کر رہی تھیں۔اس نے اپنی بھوک میرے ملائم نپلوں سے مٹائی جن کو صرف میرے شوہر کو چھکنا چاہیے تھا۔جب وہ میرا دودھ پینے میں مصروف تھا،میں نے اس کی دھوتی اتار دی۔میں نے اس کا موٹا لن دیکھاجس میں ساری لال لال نسیں اس کی ٹوپی کی طرف جا رہی تھیں اور اسے کسی لوہے کی ماند کھڑا کیا ہوا تھا۔سوامی نے میری طرف شہوت بھری نگاہوں سے دیکھا جیسے میرے اشارے کا منتظر ہو۔ میں نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا۔میر ا اشارہ پاتے ہی وہ میری گوشت سے بھری رانوں کے درمیان آگیا۔اور اپنا لن میری پیشاب والی نالی پر رگڑنے لگا۔میں لزت کی انتہاپر پہنچ گئی تھی۔وہ بولا سونالی تم کسی کنواری لڑکی کر طرح ٹائٹ ہو۔ تیار ہو اپنی چوت مجھ سے پھٹوانے کے لیئے۔میں نے کہا سوامی جی پھاڑ دو میری چوت، سما جاؤ مجھ میں۔یہ سنتے ہی سوامی نے اپنا لن جو ۷ انچ لمبا اورڈھائی انچ موٹا تھا کی ٹوپی میری چوت کے اندر ڈالی۔ وہ اندر جاتے ہی پھنس گئی۔ مجھے کافی درد ہوئی کیونکہ میرے شوہر کا لن سوامی کے مقابلے میں کافی چھوٹا تھا۔سوامی نے ایک اورجھٹکا مارااور اس کا لن ۳ انچ تک میری پھدی میں اترگیا۔ مجھے بہت تکلیف ہو رہی تھی لیکن میں برداشت کر رہی تھی۔سوامی نے تھوڑا انتظار کیا اور دوبارہ ذور لگایا۔دو تین جھٹکوں میں اس نے لن جڑ تک اندر کر دیا۔میں نے درد سے رونا شروع کر دیاسوامی رک گیا اس نے جھک کر میرے دودھ منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دئے۔آہستہ آہستہ میرا درد ختم ہوتا گیا۔اب سوامی نے ہلنا شروع کیا۔ میں نے بھی مزے سے آوازیں نکالنا شروع کر دی جن کو سن کر سوامی نے ذور دار جھٹکے دینا شروع کیئے۔ میرے منہ سے درد اور مزے سے ملی جلی آواذیں نکل رہی تھیں’’آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اوہ اوہ آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے یاہ یاہ‘‘۔ سوامی جی مجھے بہت ذور سے چود رہے تھے۔ میری چوت بالکل گیلی ہوگئی تھی۔ اچانک میری چوت نے جھٹکا کھایا اور میں فارغ ہو گئی۔لیکن سوامی فارغ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔میں دوسری بار پھر جھڑ گئی ۔میر ا جسم اب کانپ رہا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد سوامی نے شور مچایامیں چھٹنے والاہوں۔میں نے کہا ’’سوامی جی میرے اندر ہی منی چھوڑ دو اپنی‘‘۔اوراس نے اپنا لاوہ میری چوت میں اگل دیا۔مجھے اپنی چوت میں سوامی کا گرم گرم پانی محسوس ہو رہا تھااور میری چوت سے نکلتا ہوا فرش پر گر رہا تھا۔ میرے شوہر کی کبھی اتنی منی نہیں نکلی تھی جتنی سوامی نے میرے اندر چھوڑی تھی۔ اس کے بعد سوامی نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور پھر سے میری چھاتی منہ میں ڈال کر میرا دودھ پینے لگا۔کچھ دیر میں مجھے اپنی گانڈ میں سوامی کا لن چبھتاہوا محسوس ہوا۔اس کالن پھر سے کھڑا ہونے لگا تھا۔ سوامی نے مجھے گود سے اتارا اور الٹا ہو کر گھوڑی بنے کو کہا۔میں نے کہا’’سوامی جی میرے اندر اب اور ہمت نہیں‘‘۔ اس نے کہا’’ کچھ نہیں ہوتا‘‘۔یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے چومنا شروع کر دیا۔میرے گال چوستاتو کبھی چاٹتا۔میں پھر سے مدہوش ہونے لگی تھی۔ اسے مجھے پھر گھوڑی بننے کو کہا۔میں الٹی ہو کر گھوڑی بن گئی۔ اب میری گانڈ سوامی کی طرف ہو گئی۔ میں سمجھی کہ سوامی اب میر چوت پیچھے کی طرف سے مارے گا۔ رام(میرے شوہر) کئی بار اس پوزیشن میں میری چوت مارتے تھے۔ سوامی جی نے انگلی میری گانڈمیں ڈالی۔ مجھے بہت درد ہوئی۔ میں نے پوچھا’’ سوامی جی یہ آپ کیا کر رہے ہیں‘‘ ۔ سوامی بولا’’ اب میں تمہاری گانڈ ماروں گا‘‘۔ میں ڈر گئی۔میں نے کہا سوامی جی میں نے کبھی گانڈ نہیں مروائی، میں مر جاؤں گی ، آپ کا لن بہت بڑا ہے‘‘۔ سوامی بولا’’ شروع میں تھوڑا درد ہوگا، بعد میں بہت مزہ آئے گا‘‘۔ یہ کہہ کر سوامی نے پاس پڑی بوتل سے تیل نکال کر میر ی گانڈ میں ڈالا اور اپنی انگلی اندر ڈالی۔جب وہ رواں ہوئی تواس نے اپنی دو پھر تین انگلیاں میری گانڈ میں ڈال دیں۔ پھرجب اس کی تین انگلیاں اندر جانے لگیں تو اس نے اپنے لن کی ٹوپی میری گانڈ کے پتلے سے سوراخ پر رکھی اور جھٹکا مارا تو اس کی ٹوپی میری خوبصورت گانڈ میں پھنس گئی۔ میں چلانے لگی اور سوامی کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھے مضبوطی سے پکڑا ہو ا تھا۔ میں ویسے بھی اس سانڈ کے مقابلے میں کمزور تھی۔ میں اپنی کوشش میں ناکام ہوئی۔اس نے ایک جھٹکا اور لگایا اور اس کا لن آدھے سے زیادہ میری گانڈ کو چیرتے ہوئے اندر تک چلا گیا۔میری سانس رک گئی۔ میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔میں نے سوامی کی منت کی کہ مجھے چھوڑ دے لیکن اس پر بھو ت سوار تھا میری ریشم سے ذیادہ ملائم گانڈ مارنے کا۔ اس نے میری ایک نہ سنی اور ایک اور شدید جھٹکا مارا اور اس کا لن میری گانڈ کی گہرائیوں تک اتر گیا۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیراآگیا۔ مجھے اتنا درد تو اپنی سہاگ رات کو پہلی بار چوت مروانے پر بھی نہیں ہوا تھا۔ سوامی نے پھر دھکے مارنا شروع کر دیئے۔ساتھ ساتھ وہ میری چھاتیاں بھی دبا رہا تھا۔ میں شدید تکلیف میں تھی اور سوامی مزے کی دنیا میں مگن میری تکلیف سے لاتعلق ہو کر میری گانڈ چود رہا تھا۔ ۳۵ منٹ کی ازیت ناک چدائی کے بعد وہ میری گانڈ کے اندر خلاص ہو گیا۔ اس کی منی میری گانڈ سے نکل کر باہر گر رہی تھی۔ اس کے بعد میں کھڑی ہوئی تو میں توازن برقرا ر نہ رکھ سکی اور گر گئی۔ سوامی نے مجھے سہارا دے کر اٹھایا اور ساتھ بٹھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرے لیئے گرم دودھ لے کر آیا اور مجھے پینے کو دیا۔دودھ پینے کے بعد مجھے تھوڑا سکون آیا۔ اس کے بعد سوامی میرے گود میں سر رکھ کر میری چھاتی چوس کر میرا دودھ پینے لگا۔ جب میری چھاتی خالی ہو گئی تو بولا ’’ تمہارا میٹھا میٹھا دودھ پینے کے بعد ساری طاقت بحال ہوجاتی ہے جو تمہیں چودنے میں ضائع ہوئی تھی، تمہارا شوہر کتنا خوش نصیب ہے جسے تم جیسی خوبصورت اور میٹھے دودھ والی بیوی ملی ہے‘‘ پھر وہ اٹھا۔مجھے سہارا دے کر باتھ روم لے گیا۔میں نے اپنا جسم صاف کیا اور شاور لیا۔اگلے دن میں گھر جاتا چاہتی تھی چونکہ ویسے تو مجھے چوت چدوانے کا بہت مزہ آیا تھاپر سوامی نے میری گانڈ کا ستیا ناس کر کے بہت تکلیف دی تھی لیکن سوامی نے مجھے بلیک میل کیا کہ وہ میرے شوہر کو سب کچھ بتا دے گا۔میں اپنی بدنامی کے ڈر کی وجہ سے سوامی کی بات ماننے پر مجبور تھی۔اس کے بعد میں سوامی نے مجھے ایک مہینہ اپنے پاس رکھا اور روز مجھے چودتا تھا۔

Saturday 11 July 2015

The Proxy Maid

Dear readers, the conversations of the story obviously were in ‘Bangla’, some places I have used ‘Bangla’ as happened and translated into ‘English’, otherwise I have tried to use translated English.

My regular readers may remember my old maid whom I fucked recently by blackmailing her to let her steal some money. She was still working in my house and in the last October she wanted one week leave to go for nursing her ailing mother who was about 95 years of old. We didn’t impede her to go as her mother was sick and in such moment own daughter is very much essential to be with her. But 15 days passed, the maid did not return. Again one week passed but she had no tress or any information. Any of my family members knew about the residence of the maid. We only knew that she resides in the nearby slums.

One day my wife passed me good news that she suddenly met with the maid’s daughter-in-law (son’s wife) Jomela on the way. As far as I knew that the maid has only son and he is married and he has one kid. My wife didn’t know Jomela but a luckily she wore a share which my wife gifted to my old maid. I think the maid donated it to her DIL. My wife saw that a lady wearing that saree was walking along the road near the slums, she called her and asked about her identity. My wife knew the name of the maid’s son Akhter, so she asked Jomela that if she is the wife of Akhter or not.

Jomela agreed and informed that she is searching a job. She requested my wife to appoint her as maid instead of her mother-in-law. Because her husband Akhter became jobless recently as his garment company has been locked up. My wife agreed soon and told her to join from the very next day. So Jomela started work in my house instantly but as I didn’t return home in the noon as Jomela worked at that time so for long days I didn’t meet Jomela. But a secret desire of seeing her was playing in my mind.

Meanwhile a Friday the chance came to me to stay home at noon. At about 1:30 pm Jomela came to my house and for the first time I saw her. She is lean and thin and about 5 feet long, fair complexioned and her appearance is also cute. I couldn’t guess her age but after little conversation I came to knew that she got married with Akhter at her 15 years of age and she has passed her 5 years married life. So I got her age and it is around 19-20 years. As lower class girls get married at their early age and becomes a mother soon and frequently feed their breasts to their child, their breasts become baggy within their twenties. Jomela is not an exception; her 36 cupped breasts have been already hanged slightly.

I was in my bedroom and she came for sweeping my floor. I was watching her activity; she started sweeping with a broom bending her body. Though she always keeps her head covered with the end portion of her shari (anchol) but when she bent her body the shari replaced from her front and through the loose fitted blouse the narrow cleavage of her soft boobs was clearly seen. After that when she was crawling for wiping the floor again her cleavage was seen clearly, I ogled. The whitish breasts’ upper portion made me aroused and the devil though began to poke into my brain and I had to decide that by anyhow I should have to suck those nice boobs.

Few days later, I got the chance, I was applied earlier and my authority granted me leave from office for a long period. It brought a great opportunity to seduce Jomela. I started my mission to seduce her. Everyday Jomela came my house at about 11 am, my wife goes out for her office and my son goes out for his institute at 9 am and my daughter goes out for her school at 8 am. My wife and son returns within 7-8 pm but my daughter returns at about 2 pm. So from 9 am to 2 pm I remained my house alone. Jomela came in the scheduled time and started her household works. Primarily I made our relation easy by chitchatting with her. I enquired about her family and husband and she became very easy within 2 days.

Daily when she swept and wiped the whole floor I chitchatted with her to watch her nice cleavage. On the 4th day I made a trick. My wife didn’t cook rice as it would cold when we had at our lunch so I cooked the rice with the pressure cooker. That day I kept the rice with water and closed the lid of the pressure cooker and kept it near the burner. It was a luck try that I thought Jomela must want to see what was its inside and she wouldn’t fix the lid again. When she entered into the kitchen I listened attentively the sound of the kitchen. Few minutes later I heard the sound of her trying the lid with the pressure cooker. It went for about 30 seconds, then I entered and asked “Jomela, kono somossa? (any problem?)”

Jomela looked at me, smiled shyly and told “dhaknada lagaite partesi na (I can’t fix the lid)”. I smiled and told “thik ase amake dao, ami lagiye dissi (okay give it to me, I’m fixing it). I stood near her and told “kivabe lagate hoy, sikhey nao (learn how to fix it)”. Then I fixed the lid and told “eivabe ghuriye dhaknata vitore dhukabe and tarpor eivabe abar ghurabe, tarpor ei clip diye atke dibe, bas hoye gelo (first you have to insert the lid turning such, then again turn such, then lock it with this clip, it will be all done)”. While I was turning the lid I intentionally move my hand near her and my elbow touched her left boob. Jomela didn’t tell anything but moved slightly back. This was my introduction to seduce her.

Then I began to touch her body with my hands and legs with many chicanery deceits. Jomela didn’t impede me but also didn’t respond positively. Then one day I was finding the chance and thought about her, my penis was erected. Suddenly the door bell rang, I looked at the door. In the meantime I saw Jomela coming towards my room, she was going to the verandah crossing my room. When she came near the door, suddenly I got up and acted like I was hurrying to go to open the out exit for the door bell ringer. I collided with her at the door which I wanted, my erected hard penis rubbed her thighs and also crotch area. I think she realized my hard penis but responded nothing.

Then two days passed, Jomela was cutting vegetables on the floor. I intentionally started dusting the cupboard and forced her to move aside, she placed under the wash-hand basin. Then suddenly a sound came from the kitchen that something was burning on the burner. Jomela went to get up and her head collided with the basin, I was waiting for that. I pretended to be hurry and grabbed her arms and dragged to me and told “ish, dekhe uthbe to, dekhi kete gese kina (alas, be careful to get up, let me see if cut or not)”. I checked her head and found a small cut mark there, a narrow stream of blood dripped out.

I ran in the kitchen and returned after turning off the burner. Then took the first aid box and again dragged her to the chair. I ordered her “rokto berusse, boso, oshudh lagate hobe (it’s bleeding, sit here, it must be medicated)”. I sat on the chair and Jomela sat on the floor. I placed her head in between of my thighs and applied some antiseptic with cotton. The bleeding stopped and then I fixed another piece of cotton with the surgical tape. It should take one minute but I took about 10 minutes to finish the job. Meanwhile my penis erected hard and made a large tent with my lungi. When I released her, she lifted her head and I’m sure she saw the huge tent of my erected hard penis, but she pretended like nothing she saw and went back to her work.

Being dishearten I went back my room. In the next day I enquired about the wound and she informed me that there was no pain. I told her that the wound must be dressed again. So as the previous day I again sat on the chair and placing her head in between my thighs I dressed her wound. As earlier my penis erected and made a huge tent with my lungi. That day she got up after finishing my job and told “apne daktarda valoi, toy khub paji (as a doctor you are good but naughty)”. I got the green signal and was just going to catch her but the door bell rang and I got a guest.

In the next day, I made some arrangement to cook with the pressure cooker. Jomela came in right time. I asked her to cook that item with pressure cooker. Jomela arranged the item as the recipe and kept all into the pressure cooker but again she failed to fix the lid. I waited for 30 seconds at the door of the kitchen which she didn’t notice. Then I laughed loudly and she turned her face with a shyly smile and told “partasi na (can’t do)”. I again laughed and told “thik ase, eso tomake shikhiye dei (it’s okay, let’s teach you)”. I stood behind her and grabbed her both hand and told her to hold the lid with right hand and the cooker with lift hand.

My chest was attached with her back and her touch already made my penis erected hard and the tool stiffed upward and began to poke her bums. I closed more and inserted my penis through her thighs. She tried to move but I held her tightly. I kept my chin on her left shoulder and her left ear touched with my cheek. Then I taught her how to fix the lid of the cooker by grabbing her hand. Then I asked her to do that independently. Jomela did that and learned to fix the lid of the pressure cooker. Then I told “tomake ekta kaj shikhiye dilam, amar mojuri dibey na (I taught you a nice job, will you not pay my honorarium)?”

Jomela turned her face slightly left and her cheek touched my lips, soon I planted a kiss there. She smiled and told “ki mojuri debo (what honorarium will I pay)?” I told her “temon kisu na, amar haat duto dhore tomake joriye dhorao (nothing serious, grab my hands and let those hug you).” She smiled and told “amar shorom korey (I feel shame).” I again planted a kiss on her cheek and slightly bit her left ear and told “shorom kiser? Ar to keu nei (shame from what? Nobody else here)”. Then she told “achcha (okay)” and grabbed my both hands and let me hug her at her upper belly just beneath her boobs. I tried to lift my hand upwards to get her boobs but she suddenly slipped out from my hug and ran to the verandah.

It was a great shock for me, I went just near the encounter but she destroyed all. I began to seek another chance to seduce her. At last I made a plan and two days later when she came, I opened the door and pretended sickness. She started her work and when she was dusting my room, I was making some sounds like ah uh oh ah ish for attracting her attention. It worked and she came to me and asked, “baijan, ki hoise apnar” (brother, what happened to you?) I pretended and told “mathada khub batha kortise, Jomela, ekta upokar korba” (I have a bad headache, Jomela, will you do something for my favor?) Jomela ran to me and shouted “csi csi baijan, eida ki kon, ami apnar bandi, kon ki korn lagbo?” (shit bro, what are you talking, I’m your servant, just command me what to do).

I told her to find a rubbing balm from my desk and rub it on my forehead. He got that and sat on the bed at my head. She picked a pillow and placed near her and told me to lie on the pillow. I did that and she began to rub my forehead after applying some balm. He was gently rubbing and her touch made me aroused and I then started to complete my plan. At first I told her “ah, ki shokto balish diso, gharda batha hoye gelo” (ah, what a hard pillow you placed here, my shoulder is hurting). She examined the softness of the pillow and told “koi, balish to norm-e ase, thik ase ami bodlaya ditasi” (where, the pillow is quite soft, okay I’m changing it.). She got another pillow and gave me to change but I examined the softness and told “etaoto shokto” (this is hard too).

Hearing that she told “thik ase ami oi ghor theke arekta niye asi” (okay, I’m getting another form that room). She was standing from the bed but I impeded her by grabbing her hand and made her to sit, I threw the pillow and kept my head on her thigh and told “eita hosse sobcheye norom balish” (this is the softest pillow). She smiled and again began to rub the balm on my forehead. Few minutes later I raised my both hand and kept over my head, actually my hands were then kept on her lap, I could touch her supple flat tummy. She was continually rubbing my forehead. I wanted to examine her attitude and asked “tomar paye batha passo na to, ami ki uthbo?” (are you not getting hurt at your thigh, will I get up?)

Jomela shyly approved “na, na, batha pabo keno, apnea aram kore shon” (no, no, why I feel hurt, lie comfortably.” I was moving my hands and chatting with her. Once I kept my palm on her soft tummy and pressed, I also inserted my forefinger into her naval and began to caress. Jomela tried to move my hand several times and told “baijan, erokom koiren na, amar shorom pay” (brother, don’t do like this, I feel shame). I pressed her cheek and told “shorm kisher, ami tomar daktar na? ekhon tumi amar daktar hoiso” (why shaming, I’m your doctor and now you are my doctor). Then I began to press her tummy and lifted my hand upwards.

Within few minutes I gradually lifted my hands upwards and touched the base of her boobs. I softly touched her boobs from beneath and she didn’t impede me. I got the hind and grabbed her boobs and without wasting any moment grabbed her both breasts and pressed hardly. She shouted “uh maaaa, batha pai to (oh mommmm, it hurts me).” I told “thik ase, ador kore dissi (okay, I’m caressing).” Then I began to fondle her boobs lightly like caressing and nibbled her large nipples which I got easily inside her blouse as she didn’t wear any undergarment inside her blouse. She leaned her body on me and I held her head and pressed on my face. I got her lips and kissed and then I began to suck her lips and knead her boobs.

She released her body weight on me. I then pushed her body and made lie on my bed. She lay on the bed closing her eyes. At first I removed out her shari from her body and she was then only in her blouse and petticoat. The buttons of her blouse was at the front, so I unbuttoned all buttons and parted the blouse. The whitish large boobs became uncovered. The nipples were big and stiffed encircling with a large dark circle. I touched the tip of one nipple with my finger and nibbled like play the guitar string, she quivered in ecstasy. I asked her “ki bapar Jomela? (what’s the matter Jomela)” She smiled and replied “kisu na (nothing)”. I wanted to kid with her and told “tahole kepe uthle je (but why did you quiver)?”

Jomela again smiled and told “apner angule jadu ase, soriler moddhe current lagaya dise (there is magic in your finger, it has passed electricity through my body)”. “tomar valo lagse (did you enjoy)?” I asked and she replied with her head moving up and down. Then I leaned on her and touched my tongue with her nipple and lick. She again quivered and bent her body upward like an arc. I then took her whole nipple into my mouth and began to suck like a baby sucks its mother’s breast. I began to knead one and suck another simultaneously and she was just moaning aaah aah aah aah aah aaah aah aaah aaah aaah aaah aaah aaah aaah aaah aaaah aaaah aaaaha aaaaah aaaaha aaha.

Jomela was fully aroused and tried to bite me on my face and was fidgeting her waist. I then held one end of the string of her petticoat and pulled, the petticoat became loose and she helped me to remove that by uplifting her waist. Her both legs were adjacent, so I couldn’t see her pussy except some black bush on her pubic area. The petticoat was thrown far. I grabbed her one knee and tried to part her legs but she kept the thighs adjacent by force. It was her natural predilection as she never made sex except her hubby. Then I again grabbed her both the knees and parted her legs like parting the fire woods. The whole pussy was covered with thick, black, curly and long pubic hairs.

I kept parting her legs supported by my elbow with her thighs I parted her pubic hairs and saw the thick pussy lips and a gigantic muscular clitoris which was long and black in color. The hole beneath the clitoris was already filled by slick pre-cum and when I touched my finger inside my finger automatically inserted into her pussy hole. I moved my finger forward and backward through her pussy hole and at the same time I was titillating her clitoris with my thumb. She was moaning louder aaaaaah aaaaaah aaaaaah aaaaah aaaaaah aaaaah aaaaah aaaaaah aaaaaaah aaaaaaah and fidgeting her waist upward to get more friction from my finger.

I didn’t try to be sucked my penis, because I knew that it is very new to her and she didn’t want to do it. It would be introduced later. She became so impatient and so aroused that she couldn’t but requested me “dulavai, ami ar partesi na, apner oida lagbo (bro-in-law, I can’t bear more, I need your tool now).” I smiled and sat between her thighs on my knees and uplifted my lungi. My penis already erected hard and became rigid like an iron rod and was tingling stiffing upward. I placed my hand to bend it downward to place its head with the pussy hole. Meanwhile Jomela stretched her hand and grabbed my penis to help me. Guessing the shape and size she exclaimed “ommago, atto boro ar moda, ami aijka morum (oommmom, how long and fat, today I will be finished).”

Jomela told such but didn’t avoid me but dragged my penis and set my penis head into the orifice of her pussy hole. It was very slick and opened to engulf my rod. I applied a jolt and my circumcised strawberry shaped pointed penis head easily inserted into the hole. But when I applied more pressure it seemed the pussy hole narrower that my penis’s circumference and I felt sufficient tightness. Jomela began to cry “ooooh oooh oooh, aste dhukan, batha paitesi, apner oida mela moda, mone hoitase gota bash dhuktase ummago morsi go (ooooh oooh oooh, please insert slowly, I’m feeling pain, your tool is very fat, I’m seeming some bamboo is inserting, oh my mom I’m dying)”. I consoled her to accept the pain a little more and she kept her teeth closed together.

I applied some more jolt and inserted the whole penis to its base into the pussy hole and then told “dekho, eto voy passile, haat diye dekho purota dukhe gese (look, you feared much, check with your hand that the whole length has been inserted)”. Really she kept her hand at the conjugation point and astonishingly told “omg, puroda dhukaya disen (omg, you have inserted the whole)”. Then I grabbed her breasts and began to fuck with great force. Though her pussy hole was enough tight for my penis but the hole was sufficient lubricated and I was feeling the friction between her pussy wall and my penis’s body. She was groaning and moaning and uttering various sounds. I was driving my penis with a great speed and some extraordinary fucking sounds were produced.

I was enjoying immense pleasure from her tight pussy, I was biting her breasts and nipples and kneading and squeezing those meatballs. I was also sucking her lips and kissing her hardly coz I was not in my consciousness for the pleasure I was getting. I was dragging my penis till its neck and again shoved in till its base, my penis head was hitting with her womb opening inside the pussy hole. Jomela also was enjoying much, she was hugging my waist with her legs and after locking my waist crossing her toes she was pulling me towards her. I fucked her with my full strength, I dragged and was speedily boring the canal with my dick, a “thappat” sound was producing with the every thrust. I grabbed her both boobs and began to smash while I was fucking her. I was nibbling her hard nipples and she was waving her waist with the every thrust and wanting to get the full enjoyment from my penis.

Meanwhile she reached her orgasm and began to move her hip and irritating her clitoris. She was pressing my penis with her pussy wall, it was giving me immense pleasure and it became every difficult for me to control my ejection. Jomela’ extreme time reached and she exploded with the spasms within the inner pussy wall and it was felt with my penis wall and I dragged out my penis from the pussy and shot my load on her body. she was smiling with a satisfied face. After that I regularly fucked her.

Please mail me if you have any comments or suggestion for me. I’m able to fuck any lady minimum thrice in a night.

A Cute Night

Hi, I am 22 years old and I will narrate you my experience with two sexy sisters. It is really a true story, and it happened with me around two months’ back. I am living in Mumbai and not too far from house lived two girls Anu and Rashmi. Let me describe you Anu a little. She is 5″ 7′ very fair and sexy, cute and decent with long black hairs till her waist and she is really very beautiful.

Actually, I was thinking of proposing Anu, who is 20 years old and very beautiful. One day I got my guts and proposed her and happily to my excitement she accepted my offer and became my girl friend.

Then we went to movies and all that for a couple of times and I really loved her and she was also in love with me. Now one day she told me that her parents are going to attend a marriage in Surat and she and her sister (studying in college) will be alone for the next two days.

So, she said that I should come to her home in the morning as her sister will go to college and she will be left alone. So, the very next morning I reached at her home around 10 ‘O clock. She was pleased to see me there then we talked about different things for about half an hour. She asked me if I would like to have breakfast. I said ok but it should be as good as you. Then we have our breakfast.

She told that she had not bathed till now and she would like to bath and she spoke “Could you please sit for a while, I had to take bath” and she switched on TV. I started Star-movies and was some romantic movie coming on it, with plenty of kissing scenes and I got aroused a little bit. In the meanwhile Anu came out of the bathroom wrapped in a red color towel. Oh! She was looking damn sexy with droplets of water on her face and hair.

I was going out of control but I kept my cool and decided to do it easily. I told her that she is looking very beautiful and sexy. She blushed at my comment and I asked her to sit down for a moment and said “Tum Kaparhe baad mein badal lena”. She sat on the sofa besides me and started watching movie with me. Just after 2-3 minutes a kissing scene came in the movie,

I looked at her and found that she was too looking at me. So I asked her (although, I am not very courageous in using these type of terms) “kya mein tumko ek kiss karoon” she replied “nahin yeh theek nahin hoga”. Then I asked her “Arey isme darne ki kya baat hai, mein to sirf ek kiss karoonga and we are already having a affair” and I came near her took her face in my hands and started kissing her red lips which were just like rose-petals.

I kissed her for about a minute and in the meanwhile, I had loosened her towel but it was not taken off (i.e. it was on her body but slightly loosened). Then I asked her what’s the matter why you didn’t replied me in kissing “Kya mein tumahe achha nahin lagata” she said “nahin nahin yeh baat nahin hai”. I said okay then you kiss me too as passionately as I had kissed you, and I got up from the sofa.

She too got up and started kissing me, that’s what I have wanted I wanted her to get up from the sofa so that towel can come off easily and while she was kissing me I loosened the towel more and she couldn't even feel it. Now as soon as she left me, the towel, which was on her body due to our hugging came off and she said “Oh! Yeah kya ho gaya” and she tried to pick up the towel from the floor but I stopped her and took her hand in my hand and said Tum aise bhi bahout achhi lag rahi ho”.

Her tits were great in size (34C) and good in shape just like two big apples. She was shying as she was standing nude in front of me, then I got closed to her and started kissing her again. Now she was loosing control over herself but she told me “nahin nahin ye theek nahin hai please kuch mat karo but then I finally get her consent by saying that we both are lovers and we had a right to make love.

Then I started pressing her tits and said “Tumhare mommay bahaut khubsurat hain”. She said “Chalo bedroom mein chalte hain”. I picked her in my arms and went to the bedroom and put her on the bed and I switched on the lights (although there was some natural light). She asked me the reason, so I told her “main tumahri body ko achhe se dekhna chahta hoon” and I started picnhing her boobs and nipples which get hardened in no time.

Then I hugged her and started kissing her neck while, my one hand was busy exploring her sweet pussy and the other one playing with his butts. Her boobs were just great pearly, white, soft and silky mounds I was sucking them, pinching them and biting them. She screamed “Ah! Ah! Oh! Dheere Dheere karo Itna mat dabaao main mar jaoongi, please aaraam se karo”. Then I asked her if I can fuck her, she replied negatively, and the reason she gave was, that she may got pregnant.

After all I loved her, so I asked her to wait and went out of her home (any guesses why?). If you had answered condom, full marks to you. I went to the chemist shop and buyed a packet of condoms and returned to her home. She was just eagerly waiting for me I showed her condoms and I asked her to undress me which she readily did.

I asked her to suck my cock but she refused and said “nahin main aisa nahin kar sakti”. So I pulled her down on the bed and placed my mouth between her legs and started kissing her wet pussy. She was moaning with pleasure and said “yeh tum kya kar rahe ho aisa nahin karte” but soon she started enjoying that. And she started saying “I love you darling meri choot chato tum bahout achha kar rahe ho ahhh umm oh ff!!

Main mar jaaongi” and I said do you enjoy she said yes, I said similarly you will enjoy, just suck my lund, and I forced her lund into her mouth. I said “Mera lund chooso meri jaaneman” She resisted earlier, but now she was enjoying. Then after 5 minutes, I cummed in her mouth and she dranked all my cum. She than asked me to fuck her. She was so desperate that she took my lund in her hands and guided towards her pussy. She said “Mujhe chod do apna lund meri choot main daalo jaldi karo.

Then I got on up in a missionary position and put my penis in her wet cunt. She said “Ai maa bahaut dard ho raha hai hmm ah oh! aaaah ”. I asked if she is enjoying or not she said “Mazaa to a raha hai” I told her “Pehli baar dard hota hai par chinta mat karo” soon I started thrusting into her pussy and her hymen breaked and blood started coming out of her pussy, but she didn’t care and said Ah! aur zor se, meri phudi phaad do”.

She was moaning and screaming very loudly so I started kissing on her lips, so no one could hear us and my hands were pinching her great lovely boobs and she cummed in around 8 minutes. I told her that I am cumming she told me to take my dick out and cum on her boobs. I cummed on her boobs and she said “ab mere mommay ko achhi tarah maslo” and then I started massaging her boobs and laid on her and kissed all over her body her arms, back, neck and kissed on her soft bums, which were really sexy.

Then, we went to bathroom to clean ourselves, and started taking a shower. While taking shower her tits again aroused me and I started licking her nipples and she enjoyed. I told her to held the shower pipe and I put my dick inside her and began fucking her once more.

Water was running down our bodies, but we were terribly hot. But I had done one mistake (or say it was a good luck). After bringing condoms, I had forgot to close the main door and while we were taking shower, Rashmi returned from school and she was surprised that her sister was taking bath at such odd time. She asked her, so Anu get terrified as our clothes were in her bedroom and we both were nude.

After a bit of argument, we decided that we should tell Rashmi all about what has happened. I was also feeling low as it was my first fuck.

So, we both came out nude from bathroom (as we had forgot even taking the towels). Rashmi was not surprised to see us and she told us that she had seen the bedroom and our clothes were there and even told that she had heard the voices of both of us while we were making love in bathroom.

We went to bedroom to pick our clothes but Rashmi told it is not that easy, and told me “tumne meri behan ko choda hai, ab tumhe mujhe bhi chodna parega, Nahin to main daddy ko bata doongi”.

We had no choice left, but to satisfy her needs. Rashmi too was a cute and sexy girl, but Anu was more beautiful (or say it appeared to me as I was in love with her). So, we all three moved on to the double bed. Rashmi was wearing the skirt and she really had a great legs. So I told Anu to remove her shirt and I myself put hands into her skirt and tore her panty apart.

I don’t know why but I didn’t felt taking her skirt off. Instead, I widened her legs and put my head into her skirt and started kissing her pussy. That tasted so good. After kissing her there I moved my head outside and to my amazement, Anu has taken off her shirt and bra and was massaging her boobs. Her boobs were also nice though she was just in XI class. Then I removed her skirt and told her lie to down, so I can fuck her.

But she said, no “pehle mere mommay dabao, inhe chooso mujhe thora tarpadoo, uske baad chodna. I asked her how she knew about sex this much, she told us that she had once seen xxx movie with her friend at her house.

So, I asked her to come towards me and hugged her and took his one boob in my mouth and the other one was tuning the other boob. After a bit of foreplay I said that I am going to fuck you and I took out one another condom from my jeans (which lay on the table). She said, that do it without condom. I asked her that she may got pregnant. She said “Nahin tum meri gaand maaro, pichhe se gushao apna loda”.

Then I moved her round and tried to insert my penis in her ass, but it was too tight. So, I asked Anu to start fingering in her ass so it will loose a little and I started working on Anu’s tits (after all she had a good pair of tits and she is my girlfriend also).

After a bit of fingering, I again tried ramming up my cock in Rashmi’s ass but it was still tight, so I asked Anu to bring some oil to lubricate her ass (I had seen in a movie). Soon I was inserting my oily finger into Rashmi’s ass and Anu was massaging my dick with the oil.

Now I asked Rashmi to lay on my lap, in a way that her bottoms were on my lap and I started slapping her bums tightly.

She was moaning aaaaah ooouch Dheere karo, mat maro I told her to keep patience, and said this will loose up your ass.

After 8-10 slaps her ass was a real red and then I asked her to be on her knees, so that I can churn up her ass. I held up her boobs tightly and started putting my dick in side her ass. My dick is 6″ long and 2″ was in her ass.

She was screaming loudly but she told my to put my hold dick into her ass in one full shot Zor se dam lagao or pura mere andar daal do, maar do meri gaand” and I with my full strength rammed my dick into her ass, though it was also painful to me as her ass was really very tight. She screamed aaaahh eeeehee Mar gayi main. I asked whether I should take my dick out but she refused and said “Jitni Zor se chod sakte ho chodo mujhe” and I started at my full pace.

Anu by this time has really got hornier by seeing her sister and was fingering into her pussy. I held Anu by one hand and grabbed her and started biting on her boobs, while my dick was busy in exploring her sister’s ass to the fullest. I cum hot load of my sperms into Rashmi’s ass. Anu too was fascinated by the ass fucking and she said please meri bhi gaand maro” but till that time my cock was overworked and I told her that I will fuck her in the night.

I told my parents that I am going for combined studies that night, and I fucked the two beauties very well that night and next day. Anu’s ass was much nicer and she really has a great body. That was the only two days I enjoyed thoroughly. After that her parents came. Soon, after a month her father was posted to Surat. Anu told me that she loves my and can’t go against her parents. Moreover, I am also a student and can do nothing.

But I promised her that if we meet again in life, we will definitely be good friends. Then they went to Surat. The very night, they left Anu told me that she loves me and will miss me. There were tears in her eyes. Even I love her and miss her too. Thereafter I didn’t have any girlfriend or affair. If you had any suggestions, or queries you can contact me. I would like to share your fantasies, your comments. Even I am having some of my own fantasies.